{شہر طوائف والوں کا مسجد کے لئے چندہ لینا کیساہے ؟}

0

{شہر طوائف والوں کا مسجد کے لئے چندہ لینا کیساہے ؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ  ایک بستی کے عنقریب طوائف خانہ ہے وہاں سے چند لوگ جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کرنے آتے ہیں اور وہ لوگ مسجد کے چندے میں حصہ بھی لیتے ہیں جیسے دامن  یا ٹوکن کی شکل میں چندہ بھی دیتے ہیں کیا ایسے لوگوں سے چند لینا جائز ہے یا نہیں کیا ایسے لوگوں کو اپنی مسجد میں آنے کی اجازت دینا چاہئے یا نہیں ؟کیا ایسے لوگوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ جب کہ انکی حرام آمدنی بھی رہتی ہے اور حرام کاری بھی کرتے ہیں، حضور والا سے گزارش ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے اور ہمیں شکریہ موقع دیں۔ المستفتی:۔ڈاکٹر محمد صغیر اسلام پور سیتامڑھی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــــــواب بعون الملک الوہاب 
اگر وہ سب حرام کاری میں مبتلا ہیں تو  ان سبھوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ  فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ  الذِّکْرٰی  مَعَ الْقَوْمِ  الظّٰلِمِیْنَ‘‘ اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(کنز الایمان،سورہ انعام ۶۸)
جب تک اعلانیہ توبہ استغفار نہ کرلیں ان سبھوں کا بائیکاٹ کردیں ہاں اگرتوبہ استغفار کرلیں تو بعد توبہ کار خیر کرنے کے لئے کہیں مثلا مسجد میں جن چیزوں کی ضرورت ہو وہ لاکر دیں اور میلاد وغیرہ کریں اور غریبوں میں صدقات و خیرات کریں کہ اعمال صالحہ قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے’’اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ  حَسَنٰتٍ ٭ وَ کَانَ  اللّٰہُ  غَفُوْرًا  رَّحِیْمًا‘‘ مگر جو توبہ کریاور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان،سورہ فرقان ۷۰)
لیکن توبہ سے قبل یا بعد توبہ نماز جمعہ سے نہیں روکا جاسکتا کہ نماز عبادت ہے اور عبادت سے منع نہ کیا جائے گا۔رہی ان سے چندہ لینے کی بات تو توبہ سے قبل ان سے چندہ نہ لیں تاکہ عبرت حاصل ہو لیکن اگر لیکر مسجد میں لگا دیا گیا ہو تو کوئی حرج نہیں سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد, مدرسہ و غیرہ میں بعینہ روپیہ نہیں لگایا جاتا بلکہ اس سے اشیاء خریدتے ہیں خریداری میں اگر یہ نہ ہوا ہو کہ حرام دکھا کر کہا اِس کے بدلے میں فلاں چیز دے اُس نے دی اِس نے قیمت میں زرحرام دیا تو جو چیز خریدیں وہ خبیث نہیں ہوتی اور اکثر یہی صورت ہوتی ہے اس لئے مسجد میں نماز اور مدرسہ میں تحصیل علم جائز ہے۔(احکام شریعت ح ۱ ص ۱۲۷)و اللہ تعا لی اعلم  
ازقلم 
فقیر تاج محمد قادری واحدی



















Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top