{مسجد کا پانی بیچنا کیسا ہے؟}

0

{مسجد کا پانی بیچنا کیسا ہے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مسجدمیں ایک بور(یعنی بورینگ)ہے اوراس میں پانی بھی بھرپورہے اس بور سے موٹر کے ذریعے پانی کھیچ کرمصلیان کیلئے وضوکاانتظام کیاجاتا ہے مسجدکی ذرائع آمدکم ہونے کے سبب ٹرسٹیان مسجدکا کہناہے کہ مسجدمیں جوبورہے اسکاپانی بیج کرمسجد کے اخراجا ت پوری کی جا ئیں دریافت مطلب یہ امر ہے کہ بیان کردہ صورت میںمسجدکے بورکاپانی فروخت کئے ہوئے رقم سے مسجدکے اخراجات چلا سکتے ہیں یانہیں؟
(2)مسجدمیں جولائٹ آتی ہے اسکا ڈائیریکٹ کنکشن ہے یعنی اسکابل وغیرہ کچھ بھرا نہیں جاتا اس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چوری کی لائٹ سے بورچالو کرکے پانی بھراجاتاہے اسلئے اس پانی سے وضو کرکے نمازپڑھنے سے نماز نہیں ہوتی ہے گزارش ہے دونوں  مسئلے کاجواب قرآن وحدیث کی روشنی میں ارسال فرمائیں۔
المستفتی:۔(حافظ)محمدصابر حسین امام وخطیب فیضان مدینہ مسجد نائک واڑی نگر تعلقہ موھول ضلع سولاپورمہاراشٹر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــواب بعون الملک الوہاب 
 اگر بور کروانے والے نے مسجد کے لئے وقف کیا ہے یا مسجد کے رقم سے بور کیا گیا ہے تو اس پانی کو بیچ نہیں سکتے کیونکہ وہ مسجد میں وقف ہے اور مال وقف میں تصرف جائز نہیں ’’الوقف لایملک‘‘ یعنی وقف چیز کسی کی ملک نہیں۔
اور اگر بور کروانے والے نے بیچنے کی اجازت دی ہو یا وہاں بیچنے کا رواج ہو اور بورکرنے والے کو معلوم تھا پھر بھی منع نہیں کیا تو ایسی صورت میں بیچ سکتے ہیں’’المعروف  کالمشروط‘‘یعنی جو معروف ہے وہ مشروط کی طرح ہے۔
(۲)مسجد میں چوری کی لائٹ جلانا شرعا ناجائز اور قانونا جرم ہے، اس میں حکومت کو دھوکہ دینا ہے اور اسکے قانون کو توڑنا ہے اپنے کو اہانت کے لئے پیش کرنا۔اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنا ہے اور عزت کی حفاظت کرنا اور ذلت و رسوائی سے بچنا ضروری ہے جیسا کہ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ بلاٹکٹ سفر کرنے کے متعلق تحریر فرماتے ہیں یہاں کا کفار اگرچہ حربی ہیں مگر بلا ٹکٹ ریل میں سفر کرنا اپنے کو اہانت کے لئے پیش کرنا ہے اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنا ہے کہ خلاف قانون ہے مستوجب سزاہوگا اس حرکت سے احتراز لازم جو موجب ذلت و رسوائی ہو۔ (فتاوی مصطفویہ ص۲۲۶)
 رہی بات نماز کی تو نماز ہوجائے گی جیسا کہ علامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعا اس کی ملک ہو جائے، اسے پینا یا وضو یا غسل یا کسی کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے، اگر وضو کر لیا تو وضو ہو جائے گا اور گنہگار ہو گا۔(بہار شریعت ح دوم پانی کا بیان)و اللہ تعا لی اعلم  
ازقلم 
فقیر تاج محمد قادری واحدی

قد صح الجواب و المجیب مصیب و مثاب
سید شمس الحق برکاتی مصباحی 















Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top