(مسجد میں قرآن زیادہ ہو جا ئے تو کیا کریں؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مسجدوں میں قرآن پاک لوگ وقف کرتے ہیں تواتنا کثرت کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں کی ان کو ہٹانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے کچھ لوگ قبر ستان کا سہارا لیتے ہیں کچھ سمندر کے حوا لے کرتے ہیں ایسا کر نا شریعت مطہرہ کی روشنی میں کیسا ہے؟ اگرکو ئی اپنے گھر میں تلاوت کے لئے مانگے تو اسکو دینا کیسا ہے؟ صورت مذکورہ میں بہتر کیا ہے جواب عنایت فرمائیں کرم ہو گا
المستفتی :۔صابرالقادری بھیونڈی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــــــــــواب بعون الملک الوہاب
اگر قرآن شریف ضرورت سے زیادہ ہو جائے تووقف کرنے والوں کو منع کی جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ قرآن شریف کی جگہ کتب احادیث کتب فقہ اور دیگر کتب لاکر رکھ دیں اگر پھر بھی ضرورت سے زیادہ جمع ہوجائے جیسا کہ مشاہدہ ہے تو ایسی صورت میں نہ اسے قبرستان میں دفن کی جائے نہ دریا میں ڈالا جائے بلکہ دوسری مسجد یا مدرسہ میں دے دیا جائے جہاں ضرورت ہو جیسا کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر اس بھیجنے سے مصحف شریف اس مسجد پر وقف کرنا مقصود نہیں ہوتا جب تو بھیجنے والوں کو اختیار ہے وہ مصاحف ان کی ملک میں باقی ہیں جو وہ چاہیں کریں اور اگر مسجد پر وقف مقصود ہے تو اس میں اختلاف ہے کہ ایسی صورت میں اسے دوسری مسجد بھیج سکتے ہیں یانہیں، جب حالت وہ ہو جوسوال مذکور میں ہے اور تقسیم کی ضرورت سمجھی جائے تو قولِ جواز پرعمل کرکے دوسری مساجد ومدارس پر تقسیم کرسکتے ہیں اس شہر کی حاجت سے زائد ہو تودوسرے شہر کو بھی بھیج سکتے ہیں مگر انہیں ہدیہ کرکے، ان کی قیمت مسجد میں نہیں صرف کرسکتے۔ (فتاوی رضویہ شریف ج۱۶؍ص۱۶۵؍دعوت اسلامی )
لیکن عوام کو نہیں دے سکتے جیساکہ فتاویٰ رضو کی عبارت سے ظاہر ہے اگر عوام کو دینے کی اجازت ہوتی تو دوسرے شہر میں بھیجنے کے لئے سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فتوی نہ دیتے۔و اللہ تعا لی اعلم
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی