{ مری ہوئی مچھلی حلال کیوںہے ؟}
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جیسے گاے،بیل،بھینس،وغیرہ وغیرہ حلال جانور کو ذبح کیا جاتا ہےلیکن مچھلی کو حلال نہی کیا جاتاجیسےدریا سے پکڑی اور پھر وہ مرگئی پھر اسی کو لاکر پکایا اور دکان سے بھی مردہ مچھلی لاکر پکاتے ہیںتو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب سب چیز حلال ذبح کیاجا تی ہیں تو مچھلی کیوں ذبح نہیں کی جا تی ہےاور اگرذبح کی جا تی ہے تو کیا طریقہ ہے مچھلی ذبح کرنے کا؟نیز یہ بھی بتا ئیںکہ کونسی مچھلی کھانا چاہے کونسی نہیں کھانی چاہیے؟ براے کرم تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی:۔محمد سرفراز رضاایم پی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـــــــواب بعون المک الوہاب
فقہ حنفی میں بہتا ہوا خون حرام ہے اس لئے جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے تاکہ حرام خون نکل جائے چونکہ مچھلی میں بہتا ہوا خون نہیں رہتا اس لئے مچھلی حلال ہے اگرچہ پانی سے نکالنے کے بعد مرجائے اور اسکا ثبوت احادیب طیبہ سے ہے جیسا کہ مشکوتہ شریف میں ہے’’عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: أحلت لنا میتتان ودمان: المیتتان: الحوت والجراد والدمان: الکبد والطحالرواہ أحمد وابن ماجہ والدارقطنی‘‘ حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایاہمارے لئے دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں تو مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں (کہ یہ دونوں اصل میں بستہ خون ہیں نہ کہ گوشت) (مشکوٰۃ شریف باب مچھلی ٹڈی کلیجی حلال ہے؍حدیث نمبر۴۰۳۴)
اور دوسری حدیث میں ہے ’’عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا نَرْ کَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَآئِ فَاِنْ تَوضَّاْنَا بِہٖ عَطِشْنَا اَفَنَتَوَضَّأُ بِمَآئِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاوُہ، وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ رواہ مالک و الجامع ترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجۃ و الدارمی‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم (کھارے) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لئے اگر ہم اس پانی سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں (یا تیمم کرلیا کریں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔ (مشکوٰۃ شریف باب پانی کے احکام کا بیان حدیث نمبر۴۵۰)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مفتی یار احمد خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میتہ اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مرجائے چناچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مرجائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔ دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علمائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔(مراتہ المناجیح)
ان احادیث طیبہ سے ثابت ہوگیا کہ مردار مچھلی حلال ہے اگرچہ پانی سے نکلنے کے بعد مرگئی ہواور جو قرآن و احادیث سے ثابت ہو اس میں کیوں کب کیسے نہیں کرنی چاہئے ہاں اگر پانی میں مچھلی مرکر اوپر تیرنے لگے تو حرام ہے کیونکہ یہ نقصان دہ ہے اور اگر پانی میں کسی نے مار کر پکڑلیا تو یہ بھی جائز ہے (کتب فقہ وفتاوی)
(۲)پانی میں رہنے والی سب حرام ہیں سوا ئے مچھلی کے اورہر قسم کی مچھلیاں جائز ہیں(عامۂ کتب فقہ) واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی