{جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ والدین کی شفاعت کرائے گا؟ }

0

{جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ والدین کی شفاعت کرائے گا؟ }

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مردہ بچوں کا عقیقہ کرنا کیسا ہے؟نیز جو بچے بچپن میں انتقال کرجاتے ہیں اور انکا عقیقہ نہیں کیا جاتا ہے تو وہ اپنے والدین کی شفاعت کرائیں گے یا نہیں؟ بینوا توجروا
 المستفتی:۔ حافظ اشتیاق احمد سلطان پوری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــــــــواب بعون المک الوہاب
بچے کی پیدائش کی خوشی میں جو جانور ذبح کی جائے اسے عقیقہ کہتے ہیں چونکہ عقیقہ زندگی کے ساتھ ہے نہ کہ بعد انتقال لہذا بعد انتقال عقیقہ نہیں کرنا چاہئے خواہ بچے کا ہو یا کسی بھی عمر والے کا یونہی مرد ہویا عورت ۔
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں بچہ اگر ساتویں دن سے پہلے ہی مرگیا تو اس کے عقیقہ نہ کرنے سے کوئی اثر اس کی شفاعت وغیرہ پرنہیں کہ وہ وقت عقیقہ آنے سے پہلے ہی گزر گیا عقیقہ کا وقت شریعت میں ساتواں دن ہے سات دن سے پہلے مرجانا درکنار، حدیث میں ہے کہ کچا حمل جو گر جاتاہے وہ روز قیامت اپنا نال کھنیچتا ہوا آئے گا اور اپنے ماں باپ کے لئے (جبکہ وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ گئے ہوں) مولی عزوجل سے ایسا جھگڑا کرے گا جیسے قرضخواہ اپنے قرضدا ر سے، یہاں تک کہ حکم ہوگا کہ او کچے بچے، اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں لے جا۔ (سنن ابن ماجہ ابواب الجنائز ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱۶)
ہاں ’’جس بچے نے عقیقہ کا وقت پایا یعنی سات دن کا ہوگیا اور بلاعذر باوصف استطاعت اس کا عقیقہ نہ کیا اس کے لئے یہ آیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی شفاعت نہ کرنے پائے گاحدیث میں ہے’’ الغلام مرتہن بعقیقۃ‘‘لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے۔ (الجامع الصغیر حدیث ۵۸۱۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲؍ ۳۵۹)
تیسیر میں ہے’’ یعنی اذالم یعق عنہ فمات طفلا لا یشفع فی ابویہ‘‘ یعنی اگر بچے کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو اور وہ بچپن میں مرگیا تو وہ اپنے والدین کی شفاعت نہیں کرے گا۔ 
(التیسیر شرح الجامع الصغیر حدیث مذکور کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض ۲؍ ۱۶۵ بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۰؍عقیقہ کا بیان) 
اشعۃ اللمعات میں ہے امام احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ مے گوید معنی آنست کہ فرزند محبوس وممنوع ست از شفاعت، درحق والدین تاعقیقہ او را ند ہند، واعتماد برقول آں امام اجل ست وظاہرآن ست کہ وی شنیدہ است از سلف کہ معنی ایں ست امام احمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ بچے کا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اس کو والدین کے حق میں شفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور اعتماد اس عظیم الشان امام کے قول پر ہے اور ظاہر یہ ہے کہ امام موصوف نے اسلاف سے سنا ہوگا کہ اس کا معنی یہ ہے۔
 (اشعۃ اللمعات کتا ب الصید باب العقیقہ الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳؍۴۸۲)
جو بچہ قبل بلوغ مرگیا اور اس کاعقیقہ کردیا تھا، یا عقیقہ کی استطاعت نہ تھی یا ساتویں دن سے پہلے مرگیا ان سب صورتوں میں وہ ماں باپ کی شفاعت کرے گا جبکہ یہ دنیا سے باایمان گئے ہوں اس بارے میں متواتر حدیثیں ہیں۔
(فتاوی رضویہ جلد ۲۰؍عقیقہ کا بیان) واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی











Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top