{نکاح پڑھا نے کا طریقہ؟}
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جب لڑکے کا نکاح ہوتا ہے تو وکیل پہلے لڑکی کے پاس جاتا سے تو لڑکی سے وکیل کیسے قبول کرائے اور کیا کہے جواب عنایت فرمائیں۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
نکاح پڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ وکیل جسے نکاح پڑھانا ہے وہ خود دو گواہوں کو لیکر لڑکی کے پاس جائے اور اس سے اِذن لے یعنی اس طرح کہے کہ کیا تو مجھے ان دو گواہوں(گواہ کانام لے) کی موجودگی میں اجازت دیتی ہے کہ میں تیرا نکاح فلاں بن فلاں سے کردوں جس کی مہر معجّل (معجل موجل مطلق جو ہو)(رو پیہ سونا جو بھی ہو اس کانام لے سونا ہو تو وزن بتا دے) سکہ رائج الوقت علاوہ نان ونفقہ کے ۔ جب لڑکی اقرار کرے (یعنی اجازت دے دے) تو توبہ استغفار کرائے پھر کلمہ پڑھا کر واپس آئے اور خطبہ پڑھے۔
خطبۂ نکاح:۔اَلْحَمْدُ ﷲِنَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرْہٗ وَنُوْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُبِااﷲِمِنْ شُرُوْرِاَنْفُسِنَاوَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اﷲُ فَلَامُضِلَّ لَہٗ ومَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَاھَادِیَ لَہٗ وَانَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلَّااللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ٭
اَعُوْذبِاﷲ مِنَ الشیطٰن الرّجیم بسم اﷲ الرّحمٰن الرّحیم۔ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْارَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَارِجَالًاکَثِیْرًاوَّنِسَآ ءَ وَاتَّقُوْاللہَ الَّذِی تَسَآئَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۔ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْباً۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالتَّقُواللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَاتَمُوتُنَّ اِلّاَوَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ وَ قَا لَ النَّبِیُّ ﷺ اَالنِّکَا حُ مِنْ سُنَّتِی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّیْ ٭صدق اللہ و صدق رسولہ الکریم
خطبہ کے بعد دولھا سے کو توبہ و استغفار کروا ئے کلمہ پڑھا ئے پھر قبول کروا ئے یعنی قاضی(نکاح پڑھانے والا ) اس طرح کہے کہ میں بحیثیت وکیل وقاضی ان دو گواہوں (گواہ کا نام لے ) و تمام حاضرین کی موجود گی میں فلاں بنت فلاں کو آپ کی زو جیت میں بعوض مہر معجل (رو پیہ سونا جو بھی ہو اس کانام لیں سونا ہو تو وزن بتا دیں )سکہ رائج الوقت علا وہ نان و نفقہ کے دیا کیا آپ نے قبول کیا جب دولھا قبول کرلے تو صلوۃ وسلام پڑھ کر دعا ما نگے۔
نوٹ :۔ بعض جگہوں پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں، وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا ديجيے۔ یہ طریقہ محض غلط ہے۔ وکیل کو یہ اختیارنہیں کہ اس کام کے لئے دوسرے کو وکیل بنا دے، اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا اجازت پر موقوف ہے، اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہئے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اس کے ولی کا وکیل بنےخواہ یہ خود اس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے لئے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں کو تو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں۔(بہار شریعت ح ۷؍نکاح کا بیان)و اللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی