{کرونا وائرس کی حقیقت اور اس کا علاج}

0

{کرونا وائرس کی حقیقت اور اس کا علاج}

مسئلہ:۔مولانا تاج محمد صاحب قبلہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ بعد سلام عرض ہے کہ کروناوائرس کی حقیت کیا ہے؟ اس سے بچنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چا ہئے؟ امید ہے کہ آپ اپنی مصروفیات کے باوجود بھی میرے سوال کا جواب عنا یت فرماکر امت مسلمہ کی رہنما ئی کریں گے
المستفتی:۔سلمان رضا عرب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوھاب
کرونا اصل میں ایک بیماری ہے جو چائنہ سے پھیلی ہے اس کے پھیلنے کی وجہ (اللہ بہتر جانتا ہے )البتہ بظاہرناجائز حرام اشیاء کا کھانا ہے مثلا کیڑے مکوڑے بچھو سانپ چمگاڈر وغیرہان جانوروں پرندوں میں جراثیم زیا دہ تعداد میں پائے جا تے ہیںوہی جراثیم جب انسان کو کمزور کرلیتا ہے تو بیمار بنادیتا ہے لوگوں کا نظریہ ہے کہ کرونا بیماری اڑکر دوسرے کو لگ جا تی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے ترمذی شریف میں ہے’’ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ قَامَ فِینَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَال  لَا یُعْدِی شَیْئٌ شَیْئًا فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ  یَا رَسُولَ اللَّہِ، الْبَعِیرُ الْجَرِبُ الْحَشَفَۃُ نُدْبِنُہُ فَیُجْرِبُ الْإِبِلُ کُلُّہَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم  فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ، لَا عَدْوَی وَلَا صَفَر خَلَقَ اللَّہُ کُلَّ نَفْسٍ وَکَتَبَ حَیَاتَہَا وَرِزْقَہَا وَمَصَائِبَہَا، قَالَ أَبُو عِیسَی وَفِی الْبَابِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ قَالَ وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِیَّ الْبَصْرِیَّ قَال  سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ الْمَدِینِیِّ  یَقُولُ  لَوْ حَلَفْتُ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ،  لَحَلَفْتُ أَنِّی لَمْ أَرَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِیٍّ.عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایاکسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے)  ہوجاتے ہیں، رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے، اور نہ ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے۔( جامع ترمذی تاب تقدیر کا بیان باب  عدوی صفر اور ہامہ کی نفی ؍۲۱۴۳)

چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان تینوں باتوں پر لوگ یقین رکھتے تھے اور اس حدیث میں ان تینوں باتوں کی نفی کی گئی ہے، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا’’لاعدوی‘‘ یعنی  بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی ، اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے،سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے۔

اس حدیث طیبہ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ بیماری اڑ کر کسی اور کو نہیں لگ سکتی ہے البتہ اس بیماری سے پیدا ہو نے وا لے جراثیم (کٹانو )یعنی وائرس جو ایک جاندار مخلوق ہے وہ بیمار کے ذریعہ دوسرے تک پہنچتا ہے جس سے انسان بیمار ہو جا تا ہے یعنی بیماری بذات خود نہیں اڑتی بلکہ اس کے جراثیم پھیل جاتے ہیں اور یہی سائنس داں کا بھی کہنا ہے اس لئے ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ ماسک کا استعمال کریں اور یہی سبق ہمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’لَا تُدِیمُوا النَّظَرَ إِلَی الْمُجَذَّمِینَ وَ إِذَا کَلَّمْتُمُوہُمْ فَلْیَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ قِیدُ رُمْحٍ‘‘یعنی جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے۔(مسند احمد حدیث نمبر۵۸۱)

یعنی احتیاطا ماسک وغیرہ کا استعمال کریں جب کلام کریں تو دوری بنا ئیں رکھیں مگر توکل (بھروسہ)اللہ کی ہی ذات پرہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَْنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا  ہُوَ مَوْلٰنَا  وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ‘‘تم فرماؤ ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔(کنزلایمان،سورۃ نمبر ۹ التوبۃآیت نمبر ۵۱)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ وَمَا مِنَّا إِلَّا وَلَکِنَّ اللَّہَ یُذْہِبُہُ بِالتَّوَکُّلِ‘‘عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا  بدشگونی شرک ہے  اور ہم میں سے جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے یہ خیال دور کر دے گا ۔(سنن ابن ماجہ کتاب طب کا بیان باب نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور بدفال لینا ناپسندیدہ ہے حدیث نمبر۳۵۳۸)

 لیکن توکل کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال وافعال کا جا ئزہ لیں کیوں کہ بیماریاں بندوں کے اعمال وافعال کی وجہ سے آتی ہیں جیسا کہ ارشاد ربا نی ہے ’’وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ‘‘اور تمہیںجو مصیبت پہونچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتاہے۔(سورہ شوریٰ آیت نمبر ۳۰)

اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں صاحب تفسیرابن کثیر تحریر فرما تے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہو ئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’والذی نفس محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)بیدہ مامن خدش عود ولا اختلاج عرق ولا عثرۃ قدم الا بذنب‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے کو ئی چھڑی نہیں خرچتی اور نہ ہی پسینہ بہتا ہے اور نہ ہی ٹھوکر لگتی ہے مگر گناہوں کی وجہ سے۔(تفسیرابن کثیرزیر آیت)

معلوم ہوا کہ جو بیماریاں یا مصیبتیں ہمیں پہونچ رہی ہیں یہ سب ہما رے گنا ہوں کی وجہ ہے لہذا ہم سب اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اپنے اعمال وافعال کوجائزہ لیں اور اسے سنواریں نیز مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کریں۔
(۱)اللہ تعالیٰ جل شانہ سے دعائیں مانگے، اپنے گناہوں کو یاد کرکے روئیں گڑگڑا ئیں،نیز چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کثرت سے تو بہ اسغفار کریں ۔
(۲)گانا ،فلم ،ڈرامے ،جوا، شراب نوشی ،نیز ہر قسم کے خرافات سے دور رہیں ۔
(۳)نماز کی پا پندی کریں اور ہر نماز کے بعد دعائیں مانگے ارشاد ربا نی ہے ’’فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۔وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ‘‘ توجب نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔(سورہ الم نشرح آیت ۸)
(۴)اگر والدین باحیات ہوں تودل سے ان کی خدمت کریں اور اپنے حق میں ان سے دعا ئیں کرائیں کیونکہ اولاد کے حق میں والدین کی دعا ئیں بہت جلد قبول ہو تی ہیں۔ 
(۵) اللہ کی ذات پر یقین کامل رکھیںپھرنمازفجر ونمازمغرب کے بعد اول آخر تین بارکو ئی بھی درود اور تین بار اس دعا کو پڑھیں، حضرت طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرما جو شخص یہ کلمات کو صبح پرھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک اس کو کوئی مصیبت نہیں آئے گی ’’بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَااِلٰہَ اِلاَّاَنْتَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ مَاشَآئَ اﷲُ کَانَ وَلَمْ یَشَآئُ لَمْ یَکُنْ وَّلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَاِلاَّبِااﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ٭اَعْلَمُ اَنَّ اﷲ َ  عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ٭ْوَّ اَنَّ اﷲ َقَدْاَحَاطَ بِکُلِّ شَیٍٔٔ عِلْمًا٭ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی وَمِنْ شَرِّ  کُلِّ دَآبَۃٍ وَّاَنْتَ اٰخِذٌ م بِّنَاصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ٭(ابو داؤد شریف)

بیان کیاجا تا ہے کہ صحابیٔ رسول حضرت ابو دردہ رضی اللہ عنہ مسجد میںدرس دے رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ حضرت چلئے آپ کا گھر جلنے والا ہے بغل کے دیکر مکانات جل رہے ہیں آپ نے کچھ شا گرد کو بھیجا اور کہا جاؤ اپنے بھا ئی کے گھر کو بچاؤ میرا گھر نہیں جلے گا پھر دوسرا شخص آیا اور گھبراتے ہو ئے یہی جملہ دہرایا آپ نے فرمایا میرا گھر نہیں جلے گا یو نہی تیسرا شخص آیا آپ نے پھر وہی فرمایا کہ میرا گھر نہیں جلے گا پھر چو تھا شخص آیا اور عرض کیا کہ مبارک ہو آپ کا گھر جلنے سے بچ گیا جیسے ہی لپٹ آپ کے گھر کی طرف بڑھی خود بخود بجھ گئی آپ نے فرمایا میں نے کہا تھا کہ میرا گھر نہیں جلے گا۔لوگوں نے عرض کیا حضور مگر آپ کو کیسے معلوم تھا کہ نہیں جلے گا جبکہ لپٹیں کا فی تیز تھیں اور آپ کے گھر کی طرف بڑھ رہی تھیں ؟آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما تے ہو ئے سنا کہ جو شخص صبح اس دعا کو پڑھ لے گا وہ شام تک اور جو شام کو پڑھے گا وہ صبح تک ہر بلا سے محفوظ رہے گا اور میں نے صبح کو پڑھ لیا ہے تو پھر یہ بلا کیسے آسکتی ہے یعنی میرا گھر کیوں کر جل سکتا ہے اس لئے میں نے کہا کہ میرا گھر نہیں جلے گا ۔ وہ دعا اوپر مذکو ہوا۔

(۶)جب کسی شخص کو آشوب چشم ،زکام،اور خارش کے سواکسی بلا یا مصیبت میں دیکھیں توفورا یہ دعا پڑھ لیں، حدیث شریف میں ہے کہ جو بھی کسی بیمار کو دیکھ کر اس دعا کو پڑھ لے گا  ان شاء اللہ اس بلا سے محفوظ رہے گا’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا بْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلیٰ کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً  ‘‘(الملفوظ شریف)

فقیر کی اس مختصر تحریرپر عمل کریں ان شاء اللہ کورونا وائرس سے محفوظ رہیں گے بشرطیکہ اللہ تعا لیٰ پر یقین کا مل ہو۔دعا ہے مو لیٰ اپنے حبیب دافع بلا صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ وطفیل جملہ مؤمن و مؤمنات کو تمام بیماری و بلا بالخصوص کورونا وائرس سے محفوظ فرما۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 












एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top