{بالغہ لڑکی کو مسجد کے امام کے پاس پڑھانا کیسا ہے؟}

0

{بالغہ لڑکی کو مسجد کے امام کے پاس پڑھانا کیسا ہے؟}

                                                            السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہجوان لڑکی یعنی بالغہ لڑکی کو مسجد کے امام کے پاس پڑھنا پڑھانا کیسا ہے؟ امام چاہے بوڑھا ہو یا جوان؟مدرسہ میں بھی بالغ لڑکیوں کے پڑھنے پڑھانے کے متعلق حکم شرع بیان فرمائیں کتب فقہ وفتاویٰ سے مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔    
  سائلہ:۔ عائشہ صدیقہ گلبرگہ شریف
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
غیر محرم کے پاس عورتوں کو جانا منع ہے یونہی وہ غیر محرم مرد کو دیکھیں یہ بھی منع ہے حدیث شریف میں اس کی ممانعت ہے حتی عورت کی اواز بھی عورت ہے یعنی چھپانے والی چیز لہذا غیر محرم ست پردہ کرنا چاہئے کیونکہ فرض ہے۔
چونکہ علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے جیسا ارشاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’طلب العلم فرضۃ علی کل مسلم‘‘ ہر مسلمان (مرد وعورت) پر علم دین کا حاصل کرنا فرض ہے۔(مشکوۃ)
  اگر اس ایک فرض کو ترک کیا جائے تو نہ جانے کتنے گناہ اور فتنے جنم لیں گے کیونکہ عمل وعبادت کا دارومدار علم پر ہی ہے اور جب علم سے محروم تو گویا عبادت سے بھی محروم۔
دیکھئے پہلے لڑکیوں کے لئے کتابت منع تھا مگر اب علمائے کرام نے فتوی دیا کہ لکھایا جائے شریعت مطہرہ میں دوسرے کاسامنے ستر کھولنا دکھانا حرام ہے مگر علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑتا ہے اور اس پر جواز کا فتوی ہے یونہی دور حاضر میں لڑکیوں کو بھی علم دین حاصل کرنا جائز ہے مگرچند شرطوں کے ساتھ وہ شرطیں یہ ہیں۔
1)خواتین سے علم صاصل کریں اور اگر خواتین نہ ہوں یا وہ درس ٹھیک نہ دی سکتی ہوں تو مرد سے پردہ کے ساتھ علم حاصل کریں،اس طرح کہ نہ استاذ شاگردہ کو دیکھے نہ شاگردہ استاذ کو دیکھے ،یعنی لڑکیوں کے لئے بھی پردہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں نہ کہ صرف مرد وں کے لئے،حدیث شریف میں ہے ’’وعن أم سلمة : أنها كانت عند رسول الله صلى الله عليه و سلم وميمونة إذ أقبل ابن مكتوم فدخل عليه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  احتجبا منه  فقلت يا رسول الله أليس هو أعمى لا يبصرنا ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم :  أفعمياوان أنتما ؟ ألستما تبصرانه ؟  رواه أحمد والترمذي وأبو داود‘‘اور حضرت ام المؤمنین ام سلمہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رسول کریم ﷺ کے پاس موجود تھیں کہ اچانک ابن ام مکتوم جو ایک نابینا صحابی تھے آگئے، آنحضرت ﷺ نے ابن ام مکتوم کو دیکھ کر ان دونوں ازواج مطہرات سے فرمایا کہ ان سے چھپ جاؤ ام سلمہ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ حکم سن کر میں نے عرض کیا کہ کیا وہ نابینا نہیں ہے ؟ وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو یعنی اگر وہ اندھے ہیں تو تم تو اندھی نہیں ہو۔(احمد، ترمذی، ابوداؤد،مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر۳۱۴۴)   
آواز اگرچہ پردہ ہے مگر وقت ضرورت اس کی اجازت ہے جیسے سامان لانے کے لئے دکاندار سے کلام کرنا یونہی درس کے لئے بھی اجازت ہے کیونکہ علم حاصل فرض ہے۔
2)تنہائی میں نہ ہو بلکہ والدین موجود ہوں یا دیگر شاگردہ ہوں حدیث شریف میں ہے ’’عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْت‘‘ حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کے پاس جانے سے بچو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ دیور کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا دیور تو موت ہے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۶۷۴)
3)درس کے سوا فضول وعشقیہ گفتگو نہ ہو۔
4)علم دین ہو جس کا حاصل کرنا فرض یا واجب ہو دنیاوی علم نہ ہوجیسا کہ آج کل انگریزی کالجوں کاماحول ہے شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی بلکہ دنیاوی علم بقدر ضرورت بلوغت سے پہلے حاصل کی جائے یا پھر گھر کے افراد سے حاصل کریں۔
5)اگر کسی اسکول میں رہ کر علم حاصل کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں پردہ میں رہنے کا پورا پورا انتظام ہو نیز غسل وغیرہ کا معقول انتظام ہو کہ غیر محرم کا وہاں آجانا جانا نہ ہو حتی کہ اساتذہ کا بھی۔
6) اسکول کے کمرے میں لڑکی تنہا نہ رہتی ہو بلکہ وہاں اور لڑکیوں کو بھی رہنے کی اجازت ہو ورنہ فتنہ پھیل سکتا ہے۔
7)لڑکیوں سے کوئی ایسا کام نہ لیا جاتا ہو جس کو شریعت نے منع کیا ہو۔
ہاں اگر استاذ اس قدر  بوڑھا ہو کہ فتنہ کا خوب نہ ہو تو تنہائی میں علم حاصل کی جاسکتی ہے مگر بچنا بہتر ہے کہ ایسی صورت میں بھی والدین موجود ہوں خواہ وہ امام ہو یااور کوئی۔اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو لڑکیوں کو علم دین حاصل کرنے کی اجازت ہے کیونکہ علم دین حاصل کرنا فرض ہے۔ واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 






एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top