{ووٹ ڈالنے کے لئے دوسرے کی بیوی بننا کیسا ہے؟}

0

{ووٹ ڈالنے کے لئے دوسرے کی بیوی بننا کیسا ہے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ الیکشن وغیرہ کے موقع پر بعض عورتیں اپنے کو دوسرے کی بیوی منسوب کرکے ووٹ ڈالتی ہیں ان کا ایسا کرنا کیسا ہے؟اور جس کی طرف منسوب کرتی ہیں اگر وہ گواہوں کے سامنے اس بات کا اقرار کرلے کہ ہاں یہ میری بیوی ہے تو کیا وہ اس کی بیوی ہوجائے گی؟اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو کیا حکم ہے شادی شدہ نہیں ہے تو کیا حکم ہے؟بینوا تو جروا
المستفتی:۔ غلام صمدانی قادری

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
  اس طرح دھوکہ دیکر ووٹ ڈالنا شرعا ًناجائز ہے اور قانوناً جرم ہے کیونکہ اس میں حکومت کو دھوکہ دینا ہے اور اسکے قانون کو توڑنا ہے اپنے کو اہانت کے لئے پیش کرنا اپنی عزت کو خطرہ میں ڈالنا ہے حالانکہ عزت کی حفاظت کرنا اور ذلت و رسوائی سے بچنا لازم ہے حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ بلاٹکٹ سفر کرناکیسا ہے؟ تو جواب میں تحریر فرمایا یہاں کے کفار اگرچہ حربی ہیں مگر بلا ٹکٹ ریل میں سفر کرنا اپنے کو اہانت کے لئے پیش کرنا ہے اپنی عزت کوخطرہ میں ڈالنا ہے کہ خلاف قانون ہے مستوجب سزاہوگااس حرکت سے احتراز لازم جو موجب ذلت و رسوائی ہو۔ (فتاوی مصطفویہ حصہ سوم صفحہ ۱۴۶)
دوسروں کو فریب دینا شرعاً جا ئز نہیں یونہی جھوٹ بو لنا جوکہ دین اسلام میں بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ،گناہ کبیرہ ہے۔ارشاد ربا نی ہے ’’لعنت اللہ علی اللکذبین ‘‘(پارہ۳اٰل عمران ۶۱)
اور حدیث شریف میں ہے’’عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا . وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا . متفق عليه ‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ سچ بولنا، نیکوکاری کی طرف لیجاتا ہے یعنی سچ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق ہوتی ہے اور نیکوکاری نیکوکار کو جنت کے اعلی درجات تک پہنچاتی ہے اور یاد رکھو ! جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے، نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو کیونکہ جھوٹ بولنا فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے اور فسق وفجور وفاجر کو دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور یاد رکھو ! جو شخص بہت جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم،مشکوٰۃ المصابیح کتاب باب سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تاکیدحدیث نمبر۴۷۲۶)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول کریم  ﷺ نے فر مایا ’’اذا کذب العبد تبا عد عنہ الملک میلامن نتن ماجائ بہ ‘‘کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس سے ایک میل دور ہو جا تا اس بد بو کی وجہ سے جو(اس کے منہ سے) آتی ہے ۔(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۶۰۷)
جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے یامذاق کے طور پر ہو یا دوسروں کو دھو کا دینے کے لئے ہو ہر طرح سے گناہ کبیرہ اور حرام ہے کیونکہ جھوٹ ’’ام الخبائث ‘‘برائیوں کی جڑ ہے۔ جھوٹ بولنے سے آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں،نبیوں اور ولیوں کی رحمت و عنایت سے دور ہوجاتا ہے۔
  رہی بات شادی کی کہ غیر شادی شدہ کا گواہوں کے سامنے یہ جملہ کہنا کہ یہ میری بیوی ہے اس جملہ سے نکاح ہرگز نہیں ہوگا جب تک کہ گواہوں پر ظاہر نہ کیا جائے کہ یہ ایجاب وقبول نکاح کے ہیں فقط اقرار سے نکاح نہیں ہوتا ۔(ماخوذ ازبہار شریعت حصہ ۷ نکاح کا بیان)
   اوراگر شادی شدہ ہے تو دوسرے سے نکاح نہیں ہوسکتاکہ شادی شدہ سے نکاح حرام ہے ’’قال اللہ تعا لیٰ والمحصنت  من النساء‘‘واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 





एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top