{اگر حرام آمدنی ہو تو کیا کرے؟}

0

{اگر حرام آمدنی ہو تو کیا کرے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک انسان نے حرام طریقوں سے روہئے کمائے اور اس سے مکان گاڑی بینک بیلنس جمع کر لیا لیکن اب وہ انسان توبہ واستغفار کر لیا ان چیزوں سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اب وہ انسان اس حرام کی دولت سے بنی عمارت میں رہ سکتا ہے؟کیا وہ انسان حرام کمائی سے خریدی ہوئی گاڑی استعمال کرسکتا ہے؟اس کے پاس جو اب بھی حرام کمائی موجود ہے کیا وہ اسے استعمال کرسکتا ہے؟کیا اس حرام کمائی سے توبہ کرنے کے بعد اس سے اپنی اولاد کی پرورش کر سکتا ہے بینواتوجروا
المستفتی:۔محمد عطاء اللہ،سیتامڑھی

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
اللہ تعالی بندہ مومن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام خوری سے محفوظ فرمائے اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک طوائف نے اپنی ناپاک کمائی حرام کاری کے روپیہ سے ایک مکان خریدکیا اور اس کو بنام چنداشخاص سپرد کرکے لکھ دیا کہ اس مکان کی آمدنی مسجد کے اصراف میں خرچ کی جائے اور ان کو اس کا اختیار بیع ورہن حاصل نہیں کیا ایسے مکان کی آمدنی اصراف اخراجاتِ مسجدمیں صرف کرنادرست وجائزہے۔؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا ایسی اشیاء اکثر قرض سے خریدتے ہیں جب تو ظاہر کہ وہ مال حلال ہے ورنہ عام خریداریوں میں عقد ونقد مال حرام پرجمع نہیں ہوتا یعنی یہ نہیں ہوتا کہ حرام روپیہ دکھاکر کہیں اس کے عوض دے دو پھر وہی روپیہ قیمت میں دے دیں، ایسی صورت میں بھی روپے کی خباثت اس شیٔ میں سرایت نہیں کرتی ’’کماھو مذھب الامام الکرخی المفتی بہ ‘‘جیسا کہ امام کرخی کامذہب ہے کہ جس پر فتوی دیاگیا۔ان صورتوں میں اُس مکان کی آمدنی مسجد میں صرف ہوسکتی ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳؍ص۵۸۳؍دعوت اسلامی)
اس عبارت سے یہ ظاہر ہے کہ گھر گاڑی وغیرہ جو کچھ خریدا گیا ہے اسے استعمال میں لانا جائز ہے کیونکہ وہ بعینہ حرام روپیہ دکھا کر نہیں خریدا گیا،ہاں جو حرام روپیہ بچا ہوا ہے اس سے اپنے بچے کی پرورش نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے بلکہ اسے ان لوگوں کو دے دے جس سے لیا تھااور اگر وہ لوگ نہیں ہیں تو انکے وارثین کو دیدے اگر وہ بھی نہیں ہیں تو بلا ثواب کی نیت کے غریبوں میں تصدق کردے جیسا کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں حرام روپیہ کسی کام میں لگانا اصلاً جائزنہیں، نیک کام ہو یا اور، سوا اس کے کہ جس سے لیا اُسے واپس دے یافقیروں پرتصدّق کرے۔ بغیر اس کے کوئی حیلہ اُس کے پاک کرنے کانہیں، اُسے خیرات کرکے جیساپاک مال پر ثواب ملتاہے اس کی امید رکھے تو سخت حرام ہے، بلکہ فقہاء نے کفرلکھاہے۔ ہاں وہ جو شرع نے حکم دیا کہ حقدار نہ ملے تو فقیر پرتصدّق کردے اس حکم کومانا تو اس پر ثواب کی امید کرسکتاہے۔
 (فتاوی رضویہ جلد ۲۳؍ص ۵۸۱؍دعوت اسلامی) واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 


















एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top