{شب قدر کس تا ریخ میں ہے؟}
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شب قدر کس تاریخ میں ہے؟شب قدر میں کیا کرنا چاہئے؟حضرت جواب جلد عطا کردیں اللہ تعالی جل شانہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائ
المستفتی:۔حافظ اکبر علی لکھنؤ یوپی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
شب قدر کی کوئی تاریخ متعین نہیں ہے بلکہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اسے رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا، أَنّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ‘‘حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔
(بخاری حدیث نمبر ۲۰۱۷)
نیز دوسری حدیث میں ہے’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُرُوا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْمَنَامِ فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَرَی رُؤْیَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ کَانَ مُتَحَرِّیہَا فَلْیَتَحَرَّھَا فِی السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے۔ (بخاری حدیث نمبر ۲۰۱۵)
بعض لوگ ستائس کو شب قدر کہتے ہیں لیکن اسی پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے بلکہ آخری عشرہ کی ہر طاق راتوں میں عبادت کرنی چاہئے تاکہ عبادت زیادہ ہوسکے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’حضرت عبد ہ ابن ابی لُبابہ سے روایت ہے کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتا رہے وہ لیلۃ القدر پا لے گا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے (ابوعبدالرحمٰن، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں (۲۷) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں (۲۷) رات پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آ جائیں، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا (شب قدر) یہ (۲۷) رات ہی ہے، زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ انہوں نے ’’بالآیۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیا یا ’’بالعلامۃ‘‘کا ،آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ستائیسویں شب کی صبح) سورج طلوع تو ہو گا لیکن اس میں شعاع نہ ہو گی امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی حدیث نمبر ۳۳۵۱)
(۲) شب قدر کی رات میں خوب عبادت کریں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کریں اور قرآن کی تلاوت کریں درود اور کلمہ کی کثرت کریں اور اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگیں بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّہَا قَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَرَأَیْتَ إِنْ وَافَقْتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ مَا أَدْعُو قَالَ تَقُولِینَ اللَّہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا سے روایت ہے انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر مجھے شب قدر مل جائے تو کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا کرو ’’ اللَّہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معافی و درگزر کو پسند کرتا ہے تو تو مجھ کو معاف فرما دے۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر ۳۸۵۰)واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی