{اگر بارات میں ناچ گاناہو تو شرکت کر نا کیسا ہے؟}

0

{اگر بارات میں ناچ گاناہو تو شرکت کر نا کیسا ہے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جو علمائے کرام ناچ باجا والی بارات میں شرکت کرتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟بینوا تو جروا
 المستفتی:۔ تبریز عالم

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
اچھی بات کا حکم کرنا اور بری بات سے منع کرنا امر بالمعروف کہلا تا ہے عالم کو چا ہئے کہ بارات میں جا نے کے بجا ئے لوگوں کو سمجھا ئیں گانے بجا نے کی وعیدیں بتا ئیں ورنہ وہ بھی گنہگار ہو نگے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ  وَلَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ‘‘جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے ۔(کنز الایمان،سورہ مائدہ ۷۹)
ایک دوسری جگہ فرماتا ہے ’’ لَوْ لَا یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا  کَانُوْا  یَصْنَعُوْنَ ‘‘ انہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے، بیشک بہت ہی برے کام کر رہے ہیں ۔(کنزلایمان،سورہ مائدہ ۳۶)
 نیز ارشاد فرماتاہے’’وَلتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  وَ اُولٰٓئِکَ ھُمْ  الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔(کنز الایمان،پ۴؍سورہ آل عمران؍ ۱۰۴)
امام پر لازم ہے کہ منع کرے اور اگر نہ ما نے تو ایسی صورت میں انھیں چھوڑ دے اور خود بارات میں شرکت نہ کرے ،ہاں اگر فتنہ وفساد کا خوف ہو (جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ مدرسہ سے نکال دیتے ہیں یا کو ئی نہ کو ئی الزام لگا دیتے ہیں تقریبا ہر مدرسہ کا یہی معاملہ ہے) تو ایسی صورت میں گانے بجانے کے ساتھ نہ جائے بلکہ آگے یا پیچھے جاکر بارات میں شامل ہوجائے اور اس فعل کودل سے براجانے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَذٰلِکَاَ ضْعَفُا لْاِیْمَانِ‘‘تم میں جو آدمی برائی کو دیکھے، اس کو اپنے ہاتھ سے تبدیل کرے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (مسند احمد۱۱۴۸۰)
صورت مذکورہ میں امام کے پیچھے نماز ہوجائے گی اور علمائے کرام جہاں مجبور ہیں اسی کو اختیار کرتے ہیں یعنی گانا بجانا کے ساتھ نہیں جا تے ہیں بلکہ آگے پیچھے جا کر شا مل ہو جا تے ہیں اور اس فعل کو دل سے برا جا نتے ہیں ہاں جو خوشی باخوشی جائے اور گانے بجانے سے راضی رہے وہ فاسق معلن ہے اسکے پیچھے نماز جائز نہیں اور پڑھی ہوئی نماز وں کا دہرانا واجب ہے۔واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 


















एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top