{کیا والدین کی خدمت حالت تنگ دستی میں بھی ضروری ہے؟}

0

{کیا والدین کی خدمت حالت تنگ دستی میں بھی ضروری ہے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کے پاس۵؍بیٹے ہیں،اور زید کافی دنوں سے بیمار ہے گھر پر بستر پر پڑا رہتا ہے نمبر 1، بیٹا بٹوارہ کرکے ممبئی اپنے پورے پریوار کے ساتھ چلا گیا اور نمبر 2،بھی بٹوارہ کرکے گھر ہی پر تجارت کرتا ہے اور نمبر 3 ممبئی میں کما رہا ہے اور نمبر 4 زید کی دیکھ بھال کرتا ہے نمبر 5 کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے اور زید کے پاس ایک بچی بھی ہے جو شادی کی عمر تک پہنچ گئی ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ نمبر 4 ؍اگر زید کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے بیوی بچوں کے اخراجات پورے نہیں ہوتے اور زید کے اور بیٹے نہ زید کے لئے کچھ رقم دیتے ہیں اور نہ نمبر 4کو،اب نمبر 4 کیا کرے؟جواب آسان لفظوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں فرمائیں
المستفتیہ:۔ حمیرہ فاطمہ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
اولاد پر اپنے والدین کی خدمت کرنا لازم ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں کئی ایک جگہ ارشاد فرمایا’’ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ‘‘یعنی ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔حتی کہ سورہ نبی اسرائیل میں ارشاد فرمایا’’ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ  اَوْ  کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ  اُفٍّ  وَّ لَا  تَنْہَرْ ھُمَا وَ قُلْ  لَّہُمَا  قَوْلًا کَرِیْمًا ‘‘ اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں، نہ کہنا اور انھیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(کنزالایمان بنی اسرائیل۲۳)
اور حدیث شریف میں ہے’’ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ قِیلَ مَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْہِمَا فَلَمْ یَدْخُلْ الْجَنَّۃَ ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا (اس شخص کی) ناک خاک آلود ہو گئی، پھر (اس کی) ناک خاک آلود ہو گئی۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون شخص ہے؟ فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا تو (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔(مسلم حدیث نمبر۶۵۱۰)
ایک دوسری حدیث میں ہے ’’وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَصْبَحَ مُطِیعًا لِلَّہِ فِی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّۃِ وَإِنْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا. وَمَنْ أَمْسَی عَاصِیًا لِلَّہِ فِی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ النَّارِ وَإِنْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا قَالَ رَجُلٌ: وَإِنْ ظَلَمَاہُ؟ قَالَ وَإِنْ ظلماہُ وإِن ظلماہُ وإِنْ ظلماہُ‘‘اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجو شخص اپنے والدین کے متعلق اللہ کی اطاعت میں صبح کرتا ہے تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ایک ہو تو ایک، اور جو شخص اپنے والدین کے متعلق اللہ کی نافرمانی میں صبح کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر وہ ایک ہو تو ایک،ایک آدمی نے عرض کیا، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں اور اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔(مشکوتہ حدیث نمبر۴۹۴۳)
نیز ترمذی شریف میں ہے ’’عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِیِّ  صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ رِضَی الرَّبِّ فِی رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِی سَخَطِ الْوَالِدِ‘‘  عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارب کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(ترمذی ج ۲ ص۱۲)
ان آیات مقدسہ اور احادیث طیبہ سے یہ ثابت ہوا کہ اولاد پر والدین کی خدمت لازم ہے اور جو خدمت نہیں کرتا اسے لئے دنیا وآخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہے لہذا زید کے بیٹوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے والد کی خدمت کریں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو گاؤں کے لوگوں انکا بائیکاٹ کردیں۔
اور رہی بات ۴ ؍نمبر کی تو وہ خدمت کرتا رہے ان شاء اللہ دنیا اور آخرت میں کامیاب رہے گا (یہ فقیرکا تجربہ ہے) اگر دوائی و دیگر اخراجات یا لڑکا لڑکی کی شادی کے لئے رقم کی کمی ہو تو جو بھی جائداد ہو زید یعنی باپ بیچ کر پورا کرے اس کے لئے شریعت نے اجازت دی ہے اور ۴ نمبر بیٹے کے لئے کوئی دکان وغیرہ کُھلوا دے اور کچھ جگہ اپنی زنگی میں اسے ہبہ کردے تاکہ اس کے بھائی اس میں سے نہ لے سکیں جیسا کہ فتاوی فیض الرسول جلد ۲ص۷۲۴؍ پر ہے ۔ہاں بلا وجہ کوئی باپ اس طرح نہ کرے کہ اور بیٹے محروم رہیں ورنہ گنہگار ہوگا جیسا کہ فتاوی فیض الرسول جلد ۲ ص۷۲۳؍پر حدیث کے حوالے سے ہے۔
اور اگر زید کے پاس کوئی جگہ کھیت وغیرہ کچھ بھی نہ ہو جب بھی ۴؍ نمبر والا بیٹا باپ کی خدمت کرتا رہے اور اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھے تو اللہ تعالی ضرور مدد کرے گا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے’’ اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ۔ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ بَعْدِہٖ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔(کنز الایمان،سورہ عمران۱۶۰)
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے’’ وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ  وَ کَفٰی بِاللّٰہِ  وَکِیْلًا‘‘ اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ کافی ہے کام بنانے کو۔(کنز الایمان ،سورہ نساء۱۸)واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 







एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top