{کیا ہرعالم فتوی دے سکتا ہے؟ }
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا ہر عالم فتوی دے سکتاہے ہے؟بینوا تو جروا
المستفتی:۔ محمد ذیشان قادری متعلم مدرسہ اہلسنت قادریہ صدیقیہ منہاج القرآن رضانگر دولت پور گرانٹ گونڈہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
اگر عا لم سے مراد سند یافتہ ہونا ہے تو ہرعالم فتوی نہیں دے سکتا کیونکہ بہت سے سند یافتہ ہیں جو علم نہیں رکھتے ان کو فتوی دینا جائز نہیں اور ان سے پوچھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ علم والوں سے پوچھنے کا حکم ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے’’ فَسْئَلُوْآاَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔(کنز الایمان ،سورہ نحل۴۳)
یادرہے کہ جسے علم نہ ہو اسے فتوی نہیں دینا چاہئے کیونکہ بغیر علم کے فتوی دینے کے سبب وہ گنہگار ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ أُفْتِیَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ إِثْمُہُ عَلَی مَنْ أَفْتَاہُ ،زَادَ سُلَیْمَانُ الْمَہْرِیُّ فِی حَدِیثِہِ: وَمَنْ أَشَارَ عَلَی أَخِیہِ بِأَمْرٍ یَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِی غَیْرِہِ فَقَدْ خَانَہُ، وَھٰذَا لَفْظُ سُلَیْمَانَ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فتوی دیا اور سلیمان بن داود مہری کی روایت میں ہے جس کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا۔ تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا سلیمان مہری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ یہ جانتا ہو کہ بھلائی اس کے علاوہ دوسرے میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی ۔(ابوداؤد ۳۶۵۷)
اور دوسری حدیث امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ’’من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء والارض ‘‘ جو بغیر علم کے فتوی دے اس پر آسمان وزمین کے فرشتوں کی لعنت ہو۔(کنزالعما ل بحوالہ فتاوی رضویہ )
اور اگر عالم سے مراد اہل علم حضرات ہیں تو بیشک وہ فتوی دے سکتے ہیں اگر چہ مفتی کی سند نہ ہو جبکہ کسی مفتی کی صحبت میں رہ کر سیکھا ہو جیسا کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ سندکوئی چیز نہیں، بہتیرے سندیافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اُن کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یا فتوں میں نہیں ہوتی، علم ہوناچاہئے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیاہو مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے مگرخدمت علمائے کرام میں اکثر حاضررہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھاہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے۔ (فتاوہ رضویہ جلد۲۳؍ص۶۸۴؍دعوت اسلامی)
واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی