{شب برأت کی فضیلت}
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہشب برأت کی فضیلت پر کچھ تحریر فرما دیں
المستفتی:۔عبد الواحد عرب
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
کتب احادیث میںشب برأت کی بڑی فضیلت آئی ہے چند حدیث درج ہے ملاحظہ کریں’’وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتَ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ اَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَخِیْفَ اللہُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہ، قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی ظَنَنْتُ اِنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَآئِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃ‘‘اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) فرماتی ہیں کہ ایک (مرتبہ اپنی باری میں) رات کو میں نے سر تاج دو عالم ﷺ کو بستر پر نہیں پایا (جب میں نے تلاش کیا تو) یکایک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بقیع میں موجود ہیں (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھے خیال ہوا تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی اور بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف ماہ شعبان کی رات (یعنی شعبان کی پندرہویں شب) کو آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب (کی بکریوں) کے ریوڑ کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ بخشتا ہے اور رزین نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ مومنین میں سے) جو لوگ دوزخ کے مستحق ہوچکے ہیں انہیں بخشتا ہے۔(جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)بحوالہ مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر ۱۲۷۲)
(۲)وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَصُوْمُوْا یَوْمَھَا فَاِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ الَاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرُ لَہ، اَلَا مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ، الَاَ مُبْتَلًی فَاُعَا فِیَہُ اَلاَ کَذَا الَاَ کَذَا حَتّٰی یَطُلُعُ الْفَجْر‘‘اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برات) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ، اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہے کہ آگاہ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟ آگاہ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے مثلاً فرماتا ہے مثلاً کوئی مانگنے والا ہے کہ میں عطا کروں؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ (رواہ ابن ماجہ مشکوۃ حدیث نمبر ۱۲۸۰)
(۳)’’وَعَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ھَلْ تَدْرِیْنَ مَافِی ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ یَعْنِی لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ قَالَتْ مَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ فَقَالَ فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدِ بَنِی اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السّنَۃِ وَ فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِی اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَنَۃِ وَفَیْھَا تُرْفَعُ اَعْمَالُھُمْ وَ فِیْھَا تُنَزِّلُّ اَرْزَاقُھُمْ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَا مِنْ اَحَدٍیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلَّا بِرَحْمَۃِ اللہِ تَعَالٰی فَقَالَ مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلَّا بِرَحْمَۃِ اللہِ تَعَالٰی ثَلَاثَا قُلْتُ وَلَا اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللہ فَوَضَعَ یَدَہ، عَلٰی ھَامَتِہٖ فَقَالَ وَلَا اَنَّ اِلَّا اَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللہُ مِنْہُ بِرَحْمَتِہٖ یَقُوْلُھَا ثلَاَثَ مَرَّاتٍ رَوَاہُ الْبَیْھِقِیُّ فِی الدَّاعْوَتِ الْکَبِیْر‘‘اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (مجھے تو معلوم نہیں آپ ﷺ ہی بتائیے کہ) کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے اس رات کو لکھا جاتا ہے، بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے اس رات میں لکھا جاتا ہے اس رات میں بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں بندوں کے رزق اترتے ہیں حضرت عائشہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کوئی آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر بہشت میں داخل نہیں ہوسکتا آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے میں نے عرض کیا اور نہ آپ یا رسول اللہ ﷺ یعنی (آپ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہونگے؟) رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اپنے سر مبارک پر رکھا اور فرمایا اور نہ میں! (یعنی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوں گا) مگر یہ کہ اللہ جل شانہ (اپنے فضل و کرم کے صدقہ) مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے یہ الفاظ بھی آپ ﷺ نے تین بار فرمائے ۔بیہقی نے یہ روایت دعوات کبیر میں نقل کی ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح کتاب: تراویح کا بیان)واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی