(عدت کے اندر نکاح پڑھانا کیسا ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہند ہ ایک طلاق شدہ عورت ہے جو پہلے زید کے نکاح میں تھی زید کے طلاق کے 35 دن بعد عمر جان بوجھ کر ہندہ کا نکاح بکر سے کرادیا عمر جو کہ مسجد وعیدگا ہ کا امام و مدرسہ کا مدرس ہے اور ایک مشت سے ڈاڑھی بھی کم رکھتا ہے کیا یہ نکاح درست ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں تو عمر کے لے شریعت کا کیا حکم ہے جو نمازیں انکے پیچھے پڑھی گئیں اس کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں؟ قرآنِ وحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی:۔ تلمیذ مفتی اعظم کانپور امجد علی اشرفی دیناجپو ری
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک والھاب ھو الھادی الی الصواب
مطلقہ کی عدت تین حیض ہے جبکہ اسے حیض آتا ہو اور وہ حاملہ نہ ہو جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ“ اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک(کنزالایمان،سورہ بقرہ ۲۲۸)
اور اگر ابھی حیض نہیں آرہا ہے یا ضعیفہ ہو چکی کہ اب حیض نہیں آتا تو اس کی عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت بچہ جننے تک ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”وَالّٰٓءِیْ یَءِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآءِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ وَّ الّٰٓٗیْ لَمْ یَحِضْنَ۔ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ“اور تمہاری عورتوں میں جنہیں حیض کی امید نہ رہی اگر تمہیں کچھ شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔(کنزالایمان،سورہ طلاق۴)
اورفتاوی رضویہ میں ہے طلاق کی عدت حیض والی کے لئے تین حیض ہیں جو بعد طلاق شروع ہوکر ختم ہوجائیں، اور جسے حیض ابھی نہیں آیا یا حیض کی عمر سے گزرچکی اس کے لئے تین مہینہ اور حمل والی کے لئے وضع حمل۔ (فتاوی رضویہ ج۱۳/ص۲۹۵/دعوت اسلامی)
ہندہ اگر حمل سے تھی اور ۵۳/دن سے پہلے بچہ پیدا ہوگیا تھا تو نکاح درست ہے اور اگر حمل والی نہیں تھی تو عدت کے اندر نکاح پڑھانا حرام اشد حرام ہے عمر پر لازم ہے کو وہ علانیہ تو بہ کرے اورنکاحانہ پیسہ واپس کرے ساتھ ہی نکاح نہ ہونے کا اعلان کرے۔
ڈاڑھی کے متعلق سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم امام احمد رضا خاں علیہ الرحمتہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں ”داڑھی منڈانا اور کترواکر حدِ شرع سے کم کرانا دونوں حرام وفسق ہیں“ (فتاوی رضویہ جلد ۶ ص/۵۰۵/ دعوت اسلامی)
زید کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھی گئی ان سب کا دہرانا واجب ہے اور اس کو امام بنانا گناہ ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ عمر کا بائیکاٹ کردیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے”وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ“ اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(کنز الایمان،سورہ انعام ۶۸)
ہاں اگر تو بہ استغفار کرلے، نکاحانہ پیسہ واپس کردے،نکاح نہ ہونے کا اعلان کردے اور ڈاڑھی ایک مشت تک رکھ لے پھر آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کرلے تو کار خیر کرنے کے لئے کہیں مثلا مسجد میں جن چیزوں کی ضرورت ہو وہ لاکر دے اور میلاد وغیرہ کرے اور غریبوں میں صدقات و خیرات کرے کہ اعمال صالحہ قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے ”اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۔وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا“مگر جو توبہ کریاور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلا ئیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان،سورہ فرقان ۷۰)
بعد توبہ وکار خیر مل جل کر رہنے میں اور اسکے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۲۷/شعبان المعظم ۱۴۴۰ھ
۳/مئی ۲۰۱۹ء بروز جمعہ