{ماں، بیوی ،اور ایک بھا ئی میں مال کیسے تقسیم کی جا ئے؟}

0

{ماں، بیوی ،اور ایک بھا ئی میں مال کیسے تقسیم کی جا ئے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیںعلمائے کرام اس مسئلہ میں کہ پہلی بیوی سے ایک لڑکا تھا بیوی انتقال کرگء تو زید دوسری شادی کیا دوسری بیوی سے بھی ایک لڑکا ہوازید اپنی حیات میں ہی اپنے کھیت باری پراپرٹی دونوں بیٹوں کے نام کر دیا آدھاآدھاکرکے پھر زید کا انتقال ہوگیا دوسری بیوی حیات میں ہے اچانک اس بیوی کے لڑکے یعنی چھوٹے بیٹے کا ایک حادثے میں اچانک پندرہ دن پہلے انتقال ہوگیا اس کی کوء اولاد نہیں بیوہ بیوی موجود ہے اب اس کے زائداد پر کس کا حق ہے بڑا بھاء،ماں، بیوی، کیابڑا بھاء کا اپنے حصہ کے بعد اس بھاء میں کچھ حق ہے کہ نہیں؟ جواب بحوالہ عنایت فرماکرعنداللہ ماجور وعندالناس مشکور ہوں فقط والسلام 
المستفتی:۔ ا حقر محمد ارشادرضاصدیقی ازہری

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
زید کو ایسا نہیں کرنا چاہئے یعنی لڑکوں کیساتھ اہلیہ کو بھی دینا چاہئے بہرحال دونوں بچوں کو اگر اپنی زندگی میں ہی مالک بنادیا تو اب وہ دونوں بیٹوں کا ہوگیا اس میں کسی کا حق نہیںچھوٹے بیٹے کے انتقال کے بعد اس کے مال میں سے دین ووصیت نکال کر بقیہ مال کو ۲۴؍حصہ کیا جائے جس میں حصہ بیوی کا۶؍ ہوگا کیونکہ بیوی کا چوتھائی ہے جبکہ اولاد نہ ہوں جیسا کہ ارشاد ربانی’’وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘‘ اور تمہا رے ترکہ میں عورتوں کاچو تھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو،پھر اگر تمہارے اولاد ہو، تو ان کا تمہا رے ترکہ میں سے آٹھواں، جو وصیت تم کرجاؤاور دین نکال کر۔(سورہ نساء آیت نمبر ۱۲)
۲۴؍ حصہ میں ۶؍ نکالنے کے بعد بچا ۱۸؍ حصہ اب اس میں سے ماں کو ۶؍ حصہ دیاجائے گا کیونکہ ماں کاتہا ئی ہے اولاد نہ ہو نے کی صورت میں جیسا کہ ارشاد ربا نی ہے ’’وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ۔فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۔فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَا اَوْدَیْن‘‘اور میت کے ماں باپ ہر ایک کو اس کے ترکہ سے ایک چھٹا اگر میت کے اولاد ہوپھر اگر اس کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہائی پھر اگر اس کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو ماں کا چھٹا بعد اس وصیت کے جو کر گیا اور دین کے۔(کنز الایمان،سورہ نسا۱۱)
ماں کاتہا ئی حصہ بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد دیاجا ئے گا جیسا کہ علا مہ سید نعیم الدین مرادآبا دی علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں ’’اگر ماں باپ کے سا تھ زوج یا زوجہ میں سے کسی کو چھوڑا تو ماں کا حصہ زوج کا حصہ نکالنے کے بعد جو با قی بچے گا اس کا تہا ئی ہو گا نہ کہ کل کا تہا ئی ‘‘۔(خزائن العرفان زیر آیت)
چو نکہ قرآن کا فرمان ہے اگر کئی بھا ئی بہن ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے مگر سوال میں ایک بھا ئی کا ذکر ہے اور ایک بھا ئی ماں کا حصہ نہیں کم کرسکتاجیسا کہ علا مہ سید نعیم الدین مرادآبا دی علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں ’’ایک ہی بھا ئی ہو تو ماں کاحصہ نہیں گھٹا سکتا۔(خزائن العرفان زیر آیت)
باقی بچا ۱۲؍ حصہ تو یہ بھا ئی کو ملے گا۔  واللہ تعا لیٰ اعلم باالصواب 
کتبہ
فقیر تاج محمد  قادری واحدی














Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top