(دو بیٹے اور تین بیٹیوں میں مال کیسے تقسیم کی جا ئے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیںعلمائے کرام اس مسئلہ میں کہ دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں اور پانچوں سگے بہن بھائی ہیں اور انکے والدین انتقال کر چکے ہیں اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مرحوم کی جاگیر سے لڑکیں اور لڑکیاں کتنے مال کے مالک ہوئے؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں تسلی بخش جواب دے کر شکریہ کا موقع فراہم کریں.۔
المستفتی: محمد ریحان رضا نعیمی خطیب وامام جامع مسجدبڑواہ ایم پی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
اگر قرض ووصیت ہو تو پہلیمتوفی کے مال سے قرض ووصیت من الثلث نکالا جا ئے بقیہ پورے مال کو سات حصوں میں تقسیم کیا جائے پھر دونوں لڑکوں کو دودو حصہ اور تینوں لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے کیوںکہ لڑکوں کا حصہ لڑکیوں کے بنسبت دو گنا ہے جیسا کہ ارشاد ربا نی ہے’’یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِ کُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے با رے میںبیٹے کا حصہ دو بیٹوں برابر ہے۔(سورہ نساء آیت نمبر ۱۲) واللہ تعا لیٰ اعلم باالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۲۴؍ ربیع الآخر ۱۴۴۱ھ
۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۹ء اتوار