{انسانی اعضا دوسرے کو دینا کیسا ہے؟}

0

{انسانی اعضا دوسرے کو دینا کیسا ہے؟}

السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میںکہ اعضاء انسانی کو ٹرانسفر کرنا کیساہے؟ جیسے آجکل گردے وغیرہ ایک دوسرے کو لیتے دیتے ہیںتو لینے اور دے نے والوں پر حکم شرع کیا ہے؟بینوا توجروا       
 المستفتی:۔ محمد حسان نوری دولت پور گرنٹ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
انسان کے کسی بھی جزء سے انتفاع کو ناجائز قرار دیا گیا ہے اسی لئے مدت رضاعت سے زائد مدت دودھ پلانا بھی ممنوع ہے،نیز ہر اس عمل سے اسلام نے روکا ہے جو انسان کی اشرفیت وافضلیت کے منافی ہوکیوںکہ انسان اپنے جسم کا خود مالک بھی نہیں ہے بلکہ وہ صرف امین ہے، جسم کا مالک اللہ ہے، جب جسم انسان کا مملوک نہیں تو پھر غیر مملوک شئی میں کسی بھی قسم کا تصرف کیسے درست ہوسکتا ہے؟اس لئے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے جسم کے حصہ کی بیع یا ہبہ ملک غیر میں تصرف کے باعث ناجائز ہے جیسا کہ علامہ کمال الدین علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں’’والانتفاع بہ لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا وفی بیعہ اھانۃ لہٗ وکذا فی امتھانہ باالانتفاع ‘‘
(فتح القدیر ج۶،ص۶۳، باب البیع الفاسد)
اور علامہ کاسانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں’’ والاآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والا حترام ابتذالہ بالبیع والشراء ‘‘(البدائع والصنائع:ج۵،ص۱۴۵،کتاب،البیوع،فصل واماالذی یرجع الی المقصود۔الخ ومثلہ فی ردالمحتار:ج۶،ص۳۷۲،فصل فی النظر والمس۔کتاب الخطر والاباحۃ)
اس لئے اعضاء انسانی کی خرید وفروخت یا ہبہ وعطیہ ناجائز ہے۔ہاں اگر کوئی مریض ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اس کا کوئی عضو اس طرح بے کار ہو گیا ہے کہ اگر اس عضو کی جگہ کسی دوسرے انسان کا عضو اُس کے جسم میں پیوند نہ کیا جائے، تو قوی خطرہ ہے کہ اس کی جان چلی جائے گی، اور سوائے انسانی عضو کے کوئی دوسرا متبادل اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا، اور ماہر قابلِ اعتماد اطباء کو یقین ہے کہ سوائے عضو انسانی کی پیوندکاری کے کوئی راستہ اس کی جان بچانے کا نہیں ہے، اور عضو انسانی کی پیوندکاری کی صورت میں ماہر اطباء کو ظنِ غالب ہے کہ اس کی جان بچ جائے گی، تو ایسی مجبوری اور بے کسی کے عالَم میں عضؤ انسانی کی پیوندکاری کرواکے اپنی جان بچانے کی تدبیر کرنا مریض کے لئے مباح ہوگا۔
اسی طرح اگر کوئی تندرست شخص ماہر اطباء کی رائے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر اس کے دو گُردوں میں سے ایک گُردہ نکال لیا جائے، تو بظاہر اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور وہ اپنے رشتہ دار مریض کو اس حال میں دیکھتا ہے کہ اس کا خراب گُردہ اگر نہیں بدلا گیا، تو بظاہرِ حال اس کی موت یقینی ہے، اور اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے، تو ایسی حالت میں اس کے لئے اجازت ہوگا کہ اپنا ایک گُردہ اس مریض کو دے کر اس کی جان بچالے یہ انسانی  ہمدردی اور خدمت انسانیت ہے۔
  اسی طرح اگر کسی اِنسان کو خون کی ضرورت پڑجائے اور ماہر ڈاکٹر کی تجویز ہو کہ اس کے لئے خون ناگزیر ہے، تو اِنسانی جان بچانے کے لئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو عطیہ کرنے کی اجازت ہے، اِسی طرح کسی مسلمان کے لئے اس سے لینے کی اجازت ہے اللہ تعالی قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے’’ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ  اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ  فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ٭ اِنَّ اللّٰہَ  غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ ‘‘ اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت  اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا  تو جو ناچار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان،سورہ بقرہ ؍۱۷۳)
  ’’حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ ٭ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزَْامِ ٭ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ٭ اَلْیَوْمَ  یَئِسَ الَّذِیْنَ  کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ٭ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ٭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ   مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ٭ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ ‘‘ تم پر حرام ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بیدھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کام ہے، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس نوٹ گئی تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا  اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی  اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنزالایمان،سورہ مائدہ۳)
’’ قُلْ لَّا  اَجِدُ فِیقْ مَا   اُوْحِیَ  اِلَیَّ  مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ٭ اِلَّآ  اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ  خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ  بِہٖ ٭ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ  وَّ لَا عَادٍ  فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ‘‘  تم فرماؤ  میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت وہ نجاست ہے یا وہ بے حکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان،انعام ۱۴۵)
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ  وَ الدَّمَ وَ  لَحْمَ  الْخِنْزِیْرِ  وَ  مَآ   اُھِلَّ  لِغَیْرِ  اللّٰہِ بِہٖ ٭ فَمَنِ اضْطُرَّ  غَیْرَ  بَاغٍ  وَّ لَا  عَادٍ  فَاِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ ‘‘ تم پر تو یہی حرام کیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام پکارا گیا پھر جو لاچار ہو نہ خواہش کرتا اور نہ حد سے بڑھتا  تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان،سورہ نحل ۱۱۵)
  ان آیات کریمہ میں اللہ تعالی جل شانہ نے حرام چیزوں کا ذکر فرماکر ارشاد فرمایا کہ اگر کو  لاچار و مجبور تو تو بقدر ضرورت استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
    ان آیات کے تحت مفسرین کرام نے یہی فتوی دیا ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک کی شدت سے مر رہا ہوں اور وہاں خنزیر کے گوشت کے علاوہ اور کوئی شے موجود نہ ہو اور اسے یقین ہو کہ اگر نہ کھائے گا تو مر جائے گا اور اگر کھائے گا تو بچ جائے گا تو ایسی صورت میں اتنی مقدار میں کھانے کی اجازت دی گئی ہے جس سے جان بچ جائے یا کوئی پیاس سے تڑپ رہا ہو اور وہاں شراب کے علاوہ اور کوئی شیٔ موجود نہ ہو اور اسے یقین ہو کہ اسے پینے کے بعد بچ جاؤں گا اور نہ پینے کی صورت میں مر جاؤں گا تو اتنی مقدار میں شراب پینا کہ جان بچ جائے اجازت ہے۔
     ٹھیک اسی طریقے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ گردہ وغیرہ بوقت ضرورت دینے کی اجازت ہے کیونکہ شراب ام الخبائس جیسی چیز کو پینے اور خنزیر جیسے جانور کا گوشت جان بچانے کے لئے کھانے کی اجازت ہے تو کسی کی جان بچانے کے لئے گردہ یا خون دینے کی اجازت ہے بشرطیکہ دینے والے کو امید قوی ہو کی اسے کوئی ضرر نہ پہنچے گا اور جسے دیا جارہا ہے وہ صحت یاب ہوجائے گا۔واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی






Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top