{کرونا سے نجات پانے کے لئے اذان دینا کیسا ہے؟}

0

{کرونا سے نجات پانے کے لئے اذان دینا کیسا ہے؟}

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کرونا سے بچنے کے لئے یعنی مصیبت کے وقت اذان پڑھنا کیسا ہے ؟ مع حوالہ جواب عطا کریں        
المستفتی:۔محمد آزاد رضا

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب 
جواذان نماز کے لئے دی جا تی ہے اس کے علا وہ بھی اذان دینا جا ئز ہے و درست ہے کیونکہ سب سے پہلے جو اذان دنیا میں ہو ئی ہے وہ نماز کے لئے نہیں بلکہ وحشت غم دور کرنے کے لئے دی گئی ہے یعنی جب سیدنا آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لا ئے تو انھیں گھبراہٹ ہو ئی تو حکم خدا وندی سے سید نا جبرئیل علیہ السلام نے اذان دی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نزل ادم بالھند واستوحش فنزل جبرئیل علیہ السلام فناد ی بالاذان‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام جنت سے ہندوستان میں اترے تو انہیں گھبراہٹ ہوئی تو اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اتر کراذان دی۔(کنز العمال للمتقی جلد ۲ص ۱۰۲)
اس کے علا وہ بھی کئی مقامات پر اذان دینے کا حکم ہے جوکتب احا دیث وفقہ میں مذکور ہے ملاحظہ کریں’’ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اذا اذن فی قریۃ أ منھااللہ من عذابہ فی ذلک الیوم‘‘حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے تو وہ جگہ اس دن سے عذاب  سے مامون ہو جاتی ہے ۔
(  المعجم الکبیر للطبرانی جلداول ص ۲۳۱)
’’عن امیر المؤمنین مولی المسلمین علی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم قال رأنی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حزینا فقال یاابن ابی طالب انی أراک حزینا فمر بعض أھلک یؤذن فی اذنک فانہ درء اللھم‘‘امیر المؤمنین حضرت مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ سلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا اے علی میں تجھے غمگین پاتاہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے کہ اذان غم وپریشانی کو دفع کردیتی ہے۔( مرقاۃ المفاتیح جلد دوم ص ۱۴۹ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو حضور ﷺ نے نماز پڑھا ئی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتاپھر فرمایا ’’ فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِکَ فَادْعُوا اللَّہَ وَکَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا ‘‘جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ (بخاری حدیث نمبر۱۰۴۴)
’’عن عبید اللہ بن ابی رافع عن ابیہ قال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذ ان فی اذن الحسن بن علی حین ولد تہ فاطمۃ بالصلوٰۃ‘‘حضرت عبید اللہ بن ابو رافع سے ان کے والد ماجد نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے کان میں نماز جیسی اذان کہتے ہوئے سنا جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں جنا ۔(  ابو داؤ دشریف جلد دوم ص ۶۹۶ )
حضرت حسن بن علی سے مرفوعا مروی ہے کہ جس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جائے تو اسے ان شاء اللہ ام الصبیان کی بیماری نہیں ہوتی۔(مسند ابو یعلی موصلی ومرقات بحوالہ مراۃالمناجیح جلد ۶.ص ۵)
ردالمحتارمیں ہے ’’بچے اور مغموم کے کان میں اور مرگی والے اور غضب ناک اور بد مزاج آدمی یا جانور کے کان میں اور لڑائی کی شدت اور آتش زدگی کے وقت اور بعد دفن میت اور جن کی سرکشی کے وقت اور مسافر کے پیچھے اور جنگل میں جب راستہ بھول جائے اور کوئی بتانے والا نہ ہو اس وقت اذان مستحب ہے، (ردالمحتارکتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب فی المواضع التی یندب إلخ)
اور علامہ شا می علیہ الرحمہ فرما تے ہیں ’’نومولود کے کان میں، پریشان، مرگی زدہ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں، کسی لشکر کے حملے کے وقت، آگ لگ جانے کے موقع پراذان دینا مستحب ہے ۔(ماخوذشامی حاشیہ درمختار ج۱؍ ص۳۵۸)
سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ دفع بلا کے لئے اذان درست ہے یا نہیں ؟ تو آپ نے جواب میں تحریر فرما یا درست ہے ’’فقیر نے خاص اس مسئلہ میں رسالہ’’ نسم الصبافی ان الاذان یحول الوبا‘‘ لکھا ہے ۔
 (فتاوی رضویہ جلد ۵؍ ص ۳۷۱)
ان احادیث طیبہ اور کتب فقہ کی عبارت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ نماز کے علا وہ بھی اذان دینے کا حکم ہے کیونکہ اذان سے بلا ئیں مصیبتیں دور ہو جا تی ہیں لہذا کرونا جیسی مہلک وبا سے بچنے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں اذان دیں کیونکہ اذان بلا شبہ جا ئز ودرست ہے ۔
مزید معلومات کے لئے سرکاراعلی حضرت رضی للہ عنہ کا رسالہ مذکورہ کا مطالعہ کریں۔واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی


Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top