{مدرسین لاک ڈاؤن کی تنخواہ کے مستحق ہیں یا نہیں؟}

0

{مدرسین لاک ڈاؤن کی تنخواہ کے مستحق ہیں یا نہیں؟}

السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میںکہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر علمائے کرام  مدرسین وائمہ وموذنین ودیگر مساجدومدارس کے ملازمین ان کی تنخواہوں کا معاملہ کہیں کہیں پر صرف رمضان المبارک کے مہینے پر منحصر رہتا ہے اور مساجد کے بھی آمدنی کا رشتہ جمعہ مبارکہ کے جھولی سے اس کا رشتہ رہتا تھا اب جب کہ لاکڈاؤن جیسی مشکل گھڑی ہے ایسی صورت میں انتظامیہ مساجدومدارس اگر اماموں و مدرسین ودیگر ملازمین کی تنخواہ کو کس طرح سے ادا کیا جائے اور اگر ادا کرتے وقت ان کی تنخواہوں کا پورا حصہ نہ دے کر کچھ کم دیا تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں ان لوگوں پر کیا حکم آید ہوتی ہے؟ مذکورہ سوالات کے جواب حالات حاضرہ کے پیش نظر باالتفصیل عنایت فر مائیں کرم ہو گا نوازش ہوگی۔             
 المستفتی:۔ العبدالاحقر ابو طلحٰہ خان واسطی بھیونڈی

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو تعطیلات ہو ئے ہیں مدرسین ،مؤذنین ،ملازمین واما م حضرات ان تنخواہوں کے بھی مستحق ہیں اور ذمہ داران پر لازم ہے کہ ان چھٹیوں کی مکمل تنخواہ دیں جیسے بارش کی وجہ سے یا موسم سرما میں ٹھنڈی کی وجہ سے حکومت کے کہنے پر اراکین چھٹی دیتے تھے سا تھ ہی تنخواہ بھی ،یونہی لاک ڈاؤن کی بھی تنخواہ دینا اراکین پر لازم ہے کیوںکہ یہ چھٹیاں مدرسین وملازمین اپنی رضا سے نہیں کی ہیں بلکہ اراکین کے کہنے پر کئے ہیں اگر چہ حکومت کے ڈڑ سے اراکین چھٹی دئے ہوںجب بھی ان پر لازم ہے کہ ان چھٹیوں کی تنخواہ یں۔
جنگ بدر کے موقع پر شہزادیٔ مصطفی  ﷺ یعنی زوجہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ رقیہ بنت حضور  ﷺ کی طبیعت خراب تھی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جنگ بدر میں شریک ہونے سے منع کردیا مگر مال غنیمت سے برابر حصہ دیا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بدری صحابی میں شمار کیا گیا کیونکہ وہ اپنی رضا سے نہیں غیر حاضر ہو ئے تھے بلکہ حضور  ﷺ کے کہنے پر غیر حاضر ہو ئے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’ عثمان بن عفان خلفہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم علی ابنتہ رقیۃ وضرب لہ بسہمہ‘‘ عثمان بن عفان قریشی جن کو نبی کریم ﷺ نے اپنی بیمار بیٹی رقیہ کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا اور پھر جنگ بدر کے مال غنیمت میں ان کا حصہ لگایا تھا۔(مشکوٰۃ المصابیح باب: مخصوص اہل بدر کے اسماء گرامی حدیث نمبر: ۶۲۵۵)
بخاری شریف میں ایک طویل حدیث ہے جس کا مختصر حصہ یہ ہے کہ ایک شخص ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق کئی سوال کیا یعنی بدر میں شریک کیوں نہیں ہوئے ؟احد میں کیوں نہیں تھے الخ۔تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّہُ کَانَتْ تَحْتَہُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ مَرِیضَۃً، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا وَسَہْمَہ‘‘بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ  ﷺ کی صاحبزادی (رقیہ رضی اللہ عنہا) تھیں اور وہ بیمار تھیں آپ  ﷺنے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے برابر مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ (صحیح بخاری کتاب: غزوات کا بیان حدیث ۴۰۶۶)
کچھ اسی طرح کے الفاظ کے ساتھ بخاری شریف حدیث نمبر ۳۶۹۹؍اور  حدیث نمبر۳۷۰۰؍ میںبھی موجود ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگر حاکم (اراکین مدرسہ)کی اجازت سے اجیرغیر حاضر رہا جب بھی اجیر (مدرسین و ملازمین) اجرت(تنخواہ )کے مستحق ہے اگر چہ کام نہ کریں کیونکہ وہ اب بھی حاکم (اراکین )کی اطاعت کررہے ہیں انہیں کے کہنے پر مسجد یا مدرسہ بند کیا گیا ہے،اور جو مسجدیں بند نہیں ہیں بلکہ امام حضرات چند مقتدیوں کولیکرنماز پڑھارہے ہیں وہ توبدرجہ اولیٰ تنخواہ کے مستحق ہیں،ہاں اگر اجیر (مدرسین وملازمین)نے اپنی طرف سے غیر حاضری کی ہو مثلا اراکین نے بلوایا اور مدرسین وامام حاضر ی نہیں دئے یا حاضر ہو ئے مگر کام نہیں کئے تو وہ اجرت(تنخواہ)کے مستحق نہیں جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں’’مدرسین وامثالہم اجیر خاص ہیں، اور اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیم نفس لازم ہے، اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتاہے اگر چہ کام نہ ہو، مثلا مدرسین وقت معہود پر مہینہ بھر برابرحاضر رہا، اور طالب علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا، مدرس کی تنخواہ واجب ہوگئی، ہاں اگر تسلیم نفس میں کمی کرے مثلا بلارخصت چلا گیا، یا رخصت سے زیادہ دن لگائے، یا مدرسہ کاوقت چھ گھنٹے تھا، اس نے پانچ گھنٹے دئے، یا حاضر تو آیا لیکن وقت مقرر خدمت مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یادوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہوگئی، یونہی اگر آتا اور خالی باتیں کرتا چلا جاتا ہے۔ طلبہ حاضر ہیں اور پڑھاتا نہیں کہ اگرچہ اجرت کا م کی نہیں تسلیم نفس کی ہے، مگریہ منع نفس ہے، نہ کہ تسلیم، بہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہوگی، معمولی تعطیلیں مثلا جمعہ، و عیدین ورمضان المبارک کی، یا جہاں مدارس میں سہ شنبہ کی چھٹی بھی معمول ہے، وہاں یہ بھی اس حکم سے مستثنٰی ہیں کہ ان ایام میں بے تسلیم نفس بھی مستحق تنخواہ ہے، سوا اس کے او رکسی صور ت میں تنخواہ کل یا بعض ضبط نہیں ہوسکتی۔
(فتاوی رضویہ جلد ۱۹؍ ص ۵۰۶؍دعوت اسلامی)
ان مذکورہ عبارات سے معلوم ہوا کہ مدرسین ،مؤذنین ،امام و ملازمین تنخواہ کے مستحق ہیں اگر اراکین نے نہ دیں یا کم کرکے دئے تو انکی شرعی پکڑ ہو گی حقوق العباد میں گرفتار ہونگے اور قانونا مجرم ٹھہریں گے کیوں کہ حکومت کی جانب سے بھی تنخواہ دینے کا اعلان ہوا ہے لہذا اراکین پر لازم ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو بھی چھٹیاں ہو ئی ہیں ان کی تنخواہیں دیں اور اگر چندہ وغیرہ نہ ہوا ہو تو کسی سے قرض لیکر دی جا ئیں یا پھر چندہ کرکے دی جا ئیں ہاں اگر مدرسین و ملازمین اپنی طرف سے معاف کردیں یا کم لینے پر راضی ہو جا ئیں یا تاخیر میں لینا چاہیں تو ان کو اختیار ہے کو ئی حرج نہیں۔واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی

الجواب صحیح
خلیفۂ حضور تاج الشریعہ 
سید شمس الحق برکاتی مصباحیؔ
خطیب وامام سنی جامع مسجد ،مالبھاٹ مڈگاؤں گوا 
وقاضی شرع اسٹیٹ گوا(الہند)

الجواب صحیح
خلیفۂ حضور شہزدۂ شعیب الاولیاء
منظور احمد یار علوی
خادم الافتاء والتدریس 
دار العلوم برکا تیہ گلشن نگرجو گیشوری ممبئی












Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top