(مذاق اڑانا کیسا ہے ؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بکر ایک غریب مومن بندہ ہے جس کو اللہ تعالی نے چھہ بیٹی اور تین بیٹاعطا فرمایا ہے جن میں پانچ بیٹیاں بالغ ہیں اور ابھی تک بکر کسی بھی ایک لڑکی کے نکاح کے فرض سے ادا نہیں ہوسکا ہے بکر ہروقت اسی غم و پریشانی میں مبتلا رہتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ طفیل میں میری بچیوں کا بیڑا پار لگا دے لیکن زید بار بار بکر سے کہتا ہے کہ اب کی بار حج کے لیے فارم بھردو اور حج کرکے آؤ جب کی بکرزید کا بیس ہزار روپیہ کا قرض دار ہے یہ سارے حالات جانتے ہوئے بھی زید بکر کا مذاق اڑا رہا ہے اور ہنسی کررہا ہے لہذا ایسی حالت میں زید کے لئے شریعت میں کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی فقط والسلام۔
المستفتی:۔ تنویر الحق مشائخی رام پور کٹرہ ضلع بارہ بنکی یوپی الہند
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب ھو الہادی الصواب
کسی بھی بندۂ مومن کا مذاق اڑانا شرعا ناجائز و حرام ہے اللہ تعالی جل شانہ ارشاد فرماتا ہے’’ وَیْلٌ لِّْکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ‘‘ خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(کنزالایمان سورۃ الہمزۃ)
نیز فرماتا ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ٭ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْ بِالْاَلْقَابِ٭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ٭ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ‘‘ اے ایمان والو نہ مَرد مَردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔(کنزالایمان سورۃ الحجرات آیت نمبراا)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ ضحاک نے بیان کیا کہ یہ آیت بنی تمیم کے حق میں نازل ہو ئی جو حضرت عمار وخباب و بلال وصہیب وسلمان و سالم وغیرہ غریب صحابہ کی غربت دیکھ کر ان کے ساتھ تمسخر کرتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہو ئی اور فرمایا گیا کہ مرد مردوں سے نہ ہنسیں یعنی مالدار غریبوں کی ہنسی نہ بنا ئیں نہ عالی نسب غیر ذی نسب کی ،نہ دنتدرست پا ہج کی ،نہ بینا اس کی جس کی آنکھ میں عیب ہو ۔(تفسیر خزائن العرفان زیر آیت)
معلوم ہوا کہ کسی کی غربت پر مذاق نہیں اڑانا چا ہئے بلکہ مذاق اڑانا ٹھٹھا کرنا جاہلوں کا فعل قرار دیا گیا ہے بیان کیا جا تا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانۂ مبارکہ میں ایک شخص کو قتل کردیا گیا قوم کے لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے قاتل کے متعلق سال کیا آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ ایک گا ئے ذبح کرکے اس کے اعضا سے مقتول کو مارو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتا دیگا قوم کے لوگوں نے کہا کہ آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ’’ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰهِ اَنۡ اَكُوۡنَ مِنَ الۡجٰـهِلِيۡنَ ‘‘ فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں۔(سورہ بقرہ آیت ۶۷)
لہذازید کو چا ہئے کہ مذاق نہ اڑا ئے کہ غربت دینا رب کے اختیار میں ہے وہ چا ہے تو زید کو بھی غریب و کنگال بنا دے ۔ زید پر لازم ہے کہ سچے دل سے تو بہ کرے اللہ تعا لیٰ غفور الرحیم ہے معاف فرمادیگا سا تھ ہی بکر سے معافی مانگے کہ یہ حق العبد ہے جب تک بکر معاف نہ کرے گا اللہ تعا لیٰ بھی معاف نہیں فرما ئے گا ۔واللہ اعلم بالصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی