{ایک بیوی اور ایک بیٹی میں مال کیسے تقسیم کی جا ئے؟}
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیںعلمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید انتقال کرگیا اور اس نے ۲۰۰۰۰؍ بیس ہزار روپئے، ایک بیوی اور ایک بیٹی،تو بیوی اور بیٹی کو کتنا کتناملے گا۔بینواتو جروا
المستفتی:۔(مولانا)جلا لالدین
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
اگر قرض ہو تو پہلے قرض دیاجا ئے پھر وصیت کیا ہو تو ثلث سے سے نکالا جا ئے اور اگر وصیت و قرض نہ ہو تو پو رے مال کو یعنی بیس ہزار ۲۰۰۰۰؍ کو ۸ سے تقسیم کرکے ایک حصہ یعنی ۲۵۰۰؍دوہزار پانچ سو روپئے بیوی کو دے دیں کیونکہ بیوی کا آٹھواں حصہ ہے اولاد ہو نے کی صورت میں جیسا کہ ارشاد ربانی’’وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ۔فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘‘اور تمہا رے ترکہ میں عورتوں کاچو تھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو،پھر اگر تمہارے اولاد ہو، تو ان کا تمہا رے ترکہ میں سے آٹھواں، جو وصیت تم کرجاؤاور دین نکال کر۔(کنز الایمان سورہ نساء آیت نمبر ۱۲)
بقیہ ۱۷۵۰۰؍ سترہ ہزار پانچ سو روپئے بیٹی کو دے دیں۔ واللہ تعا لیٰ اعلم باالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی