(حمل گرانا کیسا ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک لڑکی شادی سے پہلے حاملہ ہوگئی اور اس نے اپنی عزت کے خوف سے اس بچے کو دوا وغیرہ کہ ذریعہ نکال دیا تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں اور ایسے شخص کے ساتھ کیا کیا جائے۔بینوا توجروا
المستفتی:۔ محمد ثاقب رضا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب ھوالھادی الی الصواب والیہ المر جع الماب
زنا گناہ کبیرہ ہے زناکرنے والے مرد وعورت پر اللہ کی جانب سے بہت بڑی سزا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے”اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ ٭ وَّ لَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ وَا لْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ“ جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔ (کنز الایمان، سورہ نور۲)
بغیر عذر کے حمل نہیں گرانا چا ہئےچونکہ یہاں زنا کا حمل ہے تو اگر بچہ میں جان نہ پڑنےسے پہلے گرایا ہے تو کو ئی
حرج نہیں کہ اس کو گرادینا ہی بہتر ہے اور جان پڑنے کی مدت چار ماہ ہے جیسا کہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ
عورت چاہے تو ایک سو بیس (120) دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے’’ہل یباح الااسقاط بعد الحبل یباح ما لم یتخلق شئی
منہ، ثم فی غیر موضع ولا یکون ذلک الا بعد مائہ وعشرین یوما انہم ارادوا بالتخلیق نفخ الروح‘(شامی، الدر المختار مع
الرد المختار، ۳؍ ۱۷۶؍فتح القدیر، ۳؍ ۲۷۴)
بغیر عذر کے حمل نہیں گرانا چا ہئےچونکہ یہاں زنا کا حمل ہے تو اگر بچہ میں جان نہ پڑنےسے پہلے گرایا ہے تو کو ئی
حرج نہیں کہ اس کو گرادینا ہی بہتر ہے اور جان پڑنے کی مدت چار ماہ ہے جیسا کہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ
عورت چاہے تو ایک سو بیس (120) دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے’’ہل یباح الااسقاط بعد الحبل یباح ما لم یتخلق شئی
منہ، ثم فی غیر موضع ولا یکون ذلک الا بعد مائہ وعشرین یوما انہم ارادوا بالتخلیق نفخ الروح‘(شامی، الدر المختار مع
الرد المختار، ۳؍ ۱۷۶؍فتح القدیر، ۳؍ ۲۷۴)
اورسرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ عورت کسی طرح معاذاﷲ حرام میں مبتلا ہوئی اور اُسے حمل
رہا اُس نے اس کی پردہ پوشی کے لئے اسقاط حمل کروایا جبکہ بچہ میں جان نہ پڑی تھی تواس پر الزام نہیں بلکہ پردہ پوشی
امرحسن ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۶؍ص دعوت اسلامی )
اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ایسے شخص کو سخت سزائیں دیتی لیکن جہاں اسلامی حکومت نہ ہو وہاں کو ئی اور سزا نہیں دے سکتا البتہ گاؤں کے لوگ سماجی بائیکاٹ کردیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے”وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ“ اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(کنز الایمان،سورہ انعام ۶۸)
رہا اُس نے اس کی پردہ پوشی کے لئے اسقاط حمل کروایا جبکہ بچہ میں جان نہ پڑی تھی تواس پر الزام نہیں بلکہ پردہ پوشی
امرحسن ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۶؍ص دعوت اسلامی )
ہاں اگر تو بہ استغفار کرلے تو کار خیر کرنے کے لئے کہیں مثلا مسجد میں جن چیزوں کی ضرورت ہو وہ لاکر دیں اور میلاد وغیرہ کریں اور غریبوں میں صدقات و خیرات کریں کہ اعمال صالحہ قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے ”اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۔وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا“مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(کنز الایمان،سورہ فرقان ۷۰) واللہ اعلم با الصواب
کتبہ