{زانیہ اگر شادی شدہ ہو تو کیا حکم ہے؟}
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک عورت ہے اسکا شوہر ویدش میں رہتا ہے اور وہاں سے خرچ وغیرہ بھیجتا رہتا ہے لیکن وہ عورت یہاں پر زنا کاری کراتی ہے تو ایسی عورت پر عندالشرع کیا حکم نافذ ہوگا؟ برائے مہربانی مکمل طور پر جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی فقط والسلام
المستفتی:۔محمد شاکر رضوی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب
زنا گناہ کبیرہ ہے زناکرنے والے مرد وعورت پر اللہ کی جانب سے بہت بڑی سزا ہے جیساکہ اللہ تعالی قرآن شریف میں ارشاد فرماتاہے’’اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ٭وَّ لَا تَأْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ٭ وَ لْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔(کنز الایمان ،سورہ نور۲)
یاد رہے یہ حکم غیر شادی شدہ کے لئے ہے اور شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار کرہلاک کر نے کا حکم ہے جیسا کہ سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ ’’الزانیۃ والزانی‘‘ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں ''یہ خطاب حکام کو ہے کہ جس مرد یا عورت سے زنا سرزد ہو اسکی حد یہ ہے کہ اس کے سو۱۰۰؍ کوڑے لگاؤ یہ حد ہر غیر محصن(آزاد کنوارے) کی ہے، کیوں کہ ہر محصن (آزاد شادی شدہ) کا حکم یہ ہے کہ اس کو رجم کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحکم نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم رحم کیا گیا محصن وہ آزاد مسلمان ہے جو مکلف ہو اور نکاح صحیح کے ساتھ صحبت کر چکا ہو خواہ ایک ہی مرتبہ ایسے شخص سے زنا ثابت ہو تو رجم کیا جائے اور ان میں سے ایک بات بھی نہ ہو مثلاً حر نہ ہو مسلمان نہ ہو یا عاقل بالغ نہ ہو اس نے کبھی اپنی بیوی کے ساتھ صحبت نہ کہ ہو یا جس کے ساتھ کی ہو اس سے نکاح فاسد ہوا ہو تو یہ سب غیر محصن میں داخل ہیں اور ان سب کا حکم کوڑے مارنا ہے'' (تفسیر خزائن العرفان سور نور)
حدیث شریف ملاحظہ ہو’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمْ أَتَی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثَہُ أَنَّہُ قَدْ زَنَی، فَشَہِدَ عَلَی نَفْسِہِ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ، فَأَمَرَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَ، وَکَانَ قَدْ أُحْصِنَ‘‘حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے زنا کا چار مرتبہ اقرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رجم کا حکم دیا اور انہیں رجم کیا گیا، وہ شادی شدہ تھے۔ (بخاری حدیث نمبر۶۸۱۴)
یہ بھی یادرہے کہ ثبوت زنا کے لئے چار آزاد مرد گواہ کی ضرورت ہے (جو گواہی کے مستحق ہوں)پھر اگر تہمت لگانے والا چار گواہ نہ پیش کرسکے تو اسے اسی کوڑے ماریں جائیں جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ٭ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ اَصْلَحُوْا للہ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں،مگر جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور سنور جائیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان ،سورہ نور۴؍۵)
نیز فرماتاہے’’لَوْ لَا جَآئُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ ٭ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ‘‘ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔(کنز الایمان ،سورہ نور؍۱۵)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سائل چار گواہ پیش کرے جنھوں نے اس طرح دیکھا ہو جیسے ماچس کے اندر سلائی یا وہ عورت خود اقرار کرے تو اس عورت کے لئے حکم شرع یہ ہے کہ اس کو سنگسار کیا جائے لیکن ہمارے ہندوستان میں اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے اس کو علانیہ توبہ کرنے کو کہا جا ئے بعد توبہ عورت آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کرے اور کار خیر کرے مثلا مسجد میں جن چیزوں کی ضرورت ہو وہ لاکر دیاور میلاد وغیرہ کرے اور غریبوں میں صدقات و خیرات کرے کہ اعمال صالحہ قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے ’’اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ٭ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘‘مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلا ئیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان ،سورہ فرقان ۷۰)
اور اگر عورت توبہ نہ کرے تو اس کا سماجی بائیکاٹ کردیا جائے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے’’وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(کنز الایمان ،سورہ انعام ۶۸)
اگر اس کا شوہر زیادہ دنوں سے ودیش رہ رہا ہو جسکی وجہ سے اس کی بیوی اپنے نفس پر قابو ناپاکر گناہ کبیرہ میں ملوث تو اس شوہر پر بھی لازم ہے کہ علانیہ توبہ کرے اور روپئے کے لالچ میں اتنے دنوں تک باہر نہ گزارے جس سے بیوی مجبور ہوکر گناہ کبیرہ میں ملوث ہو۔
اور اگر سائل چار گواہ نہ پیش کرسکے تو سائل پر لازم ہے کہ علانیہ توبہ کرے اور آئندہ الزام نہ لگانے کا وعدہ کرے کیونکہ تہمت بھی گناہ کبیرہ ہے اور تہمت لگا نے پر دنیا و آخرت میں بہت سخت عذاب ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ٭ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ ٭ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(کنز الایمان ،سورہ نور آیت نمبر۱۹)
اور اگر سائل توبہ نہ کرے تو اس کا بھی سماجی بائیکاٹ کردیا جائے۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی