{جو عالم ناچ گانا میں شریک ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟}

0

{جو عالم ناچ گانا میں شریک ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟}

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جو عالم ناچ باجا والی بارات میں شرکت کرتا ہواس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟بینوا توجروا
المستفتی:۔تبریز عالم

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجـــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب 
اچھی بات کا حکم کرنا اور بری بات سے منع کرنا دین کا بڑا ستون ہے اس کے لئے اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اگر اسے بالکل ترک کردیا جائے اور اس کے علم و عمل کو بیکار چھوڑ اجائے تو غرض نبوت بیکار اور دیانت مضمحل اور سستی عام گمراہی  تام اور جہالت شائع اور فساد زائد اور فتنہ بپا ہو جائے گا بلاد خراب اور بند گان خدا تباہ ہو جائیں گے اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید والفرقان حمید میں ارشاد فرمایا ’’کَانُوْا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ  لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ‘‘ جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے ۔(سورہ مائدہ ۷۹)
      نیز ارشاد فرماتاہے ’’لَوْ لَا یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَولِہِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا  کَانُوْا  یَصْنَعُوْنَ‘‘  انہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے، بیشک بہت ہی برے کام کر رہے ہیں ۔(سورہ مائدہ ۶۳)
        اگر امام منع کرنے کی طاقت رکھتا تھا اور منانہ کیا تو بہت بڑا گنہگار ہوا اور اگر صحیح معنوں میں فتنہ وفساد کا خوف تھا (جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ مدرسہ سے نکال دیتے ہیں  تقریبا ہر مدرسہ کا یہی معاملہ ہے) تو ایسی صورت میں گانے بجانے کے ساتھ نہ جائے بلکہ آگے یا پیچھے جاکر بارات میں شامل ہوجائے اور اس فعل کودل سے براجانے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’عَنْ طَارِقِ بْنِ شِھَابٍ قَالَ: اَوَّلُ مَنْ قَدَّمَ الْخُطْبَۃَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ مَرْوَانُ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ:یَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّۃَ، قَالَ: تُرِکَ مَا ھُنَاکَ یَا اَبَا فُلَانٍ، فَقَالَ ابوسَعیْدٍ: (اَلْخُدْرِیُّ رضی اللہ عنہ ) اَمَّاھٰذَا فَقَدْ قَضٰی مَا عَلَیْہِ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَذٰلِکَاَ ضْعَفُا لْاِیْمَانِ‘‘سیدنا طارق بن شہاب کہتے ہیں: پہلا شخص، جس نے نماز سے پہلے خطبہ دیا، وہ مروان ہے، ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے مروان! تو نے سنت کی مخالفت کی ہے، اس نے کہااے ابو فلاں! وہ والے امور چھوڑ دیئے گئے ہیں، سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا اس آدمی نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناتم میں جو آدمی برائی کو دیکھے، اس کو اپنے ہاتھ سے تبدیل کرے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (مسند احمد؍۱۱۴۸۰)
صورت مذکورہ میں اسکے پیچھے نماز ہوجائے گی اور علماء کرام جہاں مجبور ہیں اسی کو اختیار کرتے ہیں ہاں جو خوشی باخوشی جائے اور گانے بجانے سے راضی رہے وہ فاسق معلن ہے اسکے پیچھے نماز جائز نہیں اور پڑھی ہوئی نماز دہرانا واجب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب 
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی 














Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top