{کیارمضان میں امام ڈبل تنخواہ کے مستحق ہیں ؟}
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
مسئلہ:۔بخدمت مولانا تاج محمدحنفی صاحب قبلہ مدرسین کی تنخواہوں کے بارے میں لاک ڈاؤن کے پیش نظرآپ نے بہت عمدہ تحقیق پیش کی لیکن اس پربھی خلاصہ فرمادیں کہ مساجدوغیرہ کامعمول رہاہے کہ ماہ رمضان میں ایک تنخواہ مزیدامام ومؤذن کودیاجاتاہے لیکن لاک ڈاؤن کے پیش نظر مزیدتنخواہ میں کٹوتی کرناکیساہے؟ اورکٹوتی کرنے والے اراکین پرحکم شرع کیا ہے ؟ بینو ا توجروا
المستفتی:۔عبداللہ مہاراشٹر
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
تنخواہ کا جو معالہ ہے وہ عرف عام کی بنیاد پر ہے یعنی جہاں مدرسین وامام کو ماہ رمضان المبارک میں تعطیل ہو نے کے باوجود تنخواہ دیتے تھے اور کام کرنے کی صورت میں ڈبل تنخواہ دیتے تھے وہاں کے اراکین پر لازم ہے کہ مدرسین ، امام ومؤذن کو تنخواہ دیں اگر چہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان سے کام نہ لیا گیا ہو (پہلے فتوی میں فقیر نے تفصیل بیان کردی ہے )یو نہی مساجد کے امام و مؤذن کو ڈبل تنخواہ دیں جبکہ مساجد میں اذان و امامت کے کام کو انجام دیا گیا ہو۔
سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ ردالمحتار کے حوالے سے تحریر فرما تے ہیں ’’حیث کانت الباطلۃ معرعوفۃ فی یوم الثلثاء والجمعۃ وفی رمضان والعیدین یحل الاخذ‘‘جہاں منگل اور جمعہ وعیدین کی تعطیل مروج ہے وہاں ان کامشاہرہ لینا جا ئز ہے ۔(رد المحتار کتاب الوقف دار احیاء التراث والعربی بیروت ۳؍ ۳۸۰؍ بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۹؍ ص ۵۰۷ دعوت اسلامی )
حالانکہ اکثر جگہوں پر بروز منگل تعطیل(چھٹی) نہیں ہو تی ہے اور اگر کو ئی ملازم چھٹی کردے تو تنخواہ کاٹ لی جا تی ہے مگر اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جہاں اس کا رواج ہو وہاں بروز منگل کی بھی تنخواہ دی جا ئے گی یونہی جہاں ماہ رمضان میں امام و موذن کو ڈبل تنخواہ دی جا تی تھی اور وہاں کے امام و مؤذن نے اپنی ذمہ داری نبھا ئی ہے تو اراکین پر لازم ہے کہ ڈبل تنخواہ دیں اگرچہ چند افراد ہی کو امام نے نماز پڑھا ئی ہو،چونکہ مدرسہ مکمل بند رہا ہے اس لئے مدرسین ڈبل تنخواہ کے مستحق نہیں ہیںبلکہ ایک تنخواہ کے مستحق ہیں ہاں اگر کسی مدرس کو مدرسہ میں دیکھ بھال کیلئے یا اور کسی وجہ سے روکا گیا ہے تو ماہ رمضان میں وہ بھی ڈبل تنخواہ کے مستحق ہیں ،اگر اراکین نہیں دیں گے تو وہ سخت گنہگار ہونگے کیونکہ یہ حقوق العبد ہے اور حقوق العبد کو اللہ تعا لیٰ اس وقت تک نہیں معاف کرتا جب تک بندہ نہ معاف کردے اور اگر معاف نہیں کیا تو بروز حشر غصب کرنے والے کی نیکیاں اس شخص کو دے دی جا ئے گی جس کامال غصب کیاہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’عن ابی ہریرۃ ان سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أتدرون ما المفلس؟قالوا المفلس فینا من لا درہم لہ ولا متاع. فقال إن المفلس من أمتی من یأتی یوم القیامۃ بصلاۃ وصیام وزکاۃ ویأتی وقد شتم ہذا وقذف ہذا. وأکل مال ہذا. وسفک دم ہذا وضرب ہذا فیعطی ہذا من حسناتہ وہذا من حسناتہ فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضی ما علیہ أخذ من خطایاہم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔رواہ مسلم‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابۂ کرام سے دریا فت فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس اور گنہگار کون ہے ؟صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ پیسے ہوں اور نہ سامان ،حضور ﷺ نے فرمایا میری امت میں دراصل مفلس وہ شخص ہے کہ جو قیامت کے دن نماز ،روزہ اور زکوۃ وغیرہ لیکر اس حال میں آ ئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ،کسی پر تہمت لگا ئی ہو گی ،کسی کا مال کھا لیا ہو گا ،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہو گا ،تو اب ان کو راضی کر نے کے لئے اس شخص کی نیکیاں ان مظلوموںکے درمیان تقسیم کی جائے گی اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جا نے کے بعد بھی لوگوں کے حقوق اس پر با قی رہ جا ئیں گے تو اب حق داروں کے گناہ لاد دئے جا ئیں گے یہاں تک کہ اسے دوزخ میں پھینک دیاجا ئے گا ۔(کتاب: امر بالمعروف کا بیان باب: حقیقی مفلس کون ہے حدیث نمبر ۵۰۱۶)
میں جملہ اراکین سے عرض کروں گا کہ اس حدیث کو بار بار پڑھیں اور علمائے کرام کے حقوق کو ادا کریںکیونکہ علمائے کرام کے حقوق کو مار کر آپ کا بھلا ہو نے والا نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو اپنی جیب سے دینا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ مسجد ومدرسہ کے رقم کو بچانے کے چکر میںآپ اپنی آخرت برباد کردیں اور بروز حشر نیکیوں سے محروم ہو کر جہنم کے ایندھن بن جا ئیں۔دعا ہے مولیٰ کریم سمجھنے اور ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی