(زانیہ کی بیٹی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟)

0

(زانیہ کی بیٹی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  ایک شخص نے عورت سے زنا کیا، کیا اس عورت کی بیٹی سے اس شخص کے لڑکے کا نکاح جائز ہے یا نہیں حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔بینوا توجروا
    المستفتی:۔ محمد سرفراز

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک والھاب ھو الھادی الی الصواب 

  صورت مسؤلہ میں نکاح ہرگز جائز نہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے”حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْ  اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ  وَ اُمَّہٰتُ نِسَآءِکُمْ  وَ رَبَآءِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ  حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآءِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ۔ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ۔ وَ حَلَآءِلُ اَبْنَآءِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ۔  وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ  غَفُوْرًا  رَّحِیْمًا“حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا  اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں سے حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیبیاں اور دو بہنیں اکٹھی کرنا مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنزالایمان،سورہ نساء۲۳)

 البتہ زنا کرنے کے سبب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ایسے شخص کو سخت سزائیں دیتی لیکن جہاں اسلامی حکومت نہ ہو وہاں کو ئی اور سزا نہیں دے سکتا البتہ گاؤں کے لوگ ان کا بائیکاٹ کریں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے”وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ  فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ  الذِّکْرٰی  مَعَ الْقَوْمِ  الظّٰلِمِیْنَ“ اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(کنز الایمان،سورہ انعام ۶۸)

ہاں اگر تو بہ استغفار کرلے تو کار خیر کرنے کے لئے کہیں مثلا مسجد میں جن چیزوں کی ضرورت ہو وہ لاکر دیں اور میلاد وغیرہ کریں اور غریبوں میں صدقات و خیرات کریں کہ اعمال صالحہ قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں ہے ”اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۔وَ کَانَ  اللّٰہُ  غَفُوْرًا  رَّحِیْمًا“مگر جو توبہ کریاور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(کنز لایمان،سورہ فرقان ۷۰)واللہ اعلم با الصواب 

کتبہ
فقیرتاج محمد قادری واحدی 


Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top