(نکاح کا پیسہ مانگ کر لینا کیسا ہے؟)

0

(نکاح کا پیسہ مانگ کر لینا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ نکاح کا پیسہ مانگ کر لینا کیسا ہے؟ تسلّی بخش جواب مرحمت فرمائیں۔
المستفتی:۔علی رضا حبیبی رضوی

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک والھاب
نکاح کا پیسہ مانگنا جائز ہے۔(فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد اول ص ۵۲۶)
کیونکہ نکاح پڑھانے والے کا حق ہے اور اپنا حق ہر ایک کو مانگنے کا اختیار ہے ایک عالم دین مجلس نکاح میں بیٹھ کر دولھا دولھن کا انتظار کرتا ہے رجسٹر پر کرکے نکاح پڑھاتا ہے پھر رجسٹر بحفاظت رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ تو اپنا حق بھی مانگ سکتا ہے کیونکہ نکاح کی اجرت لینا جائز ہے جیسا فتاوی عالمگیری میں ہے ''وکل نکاح باشرہ القاضی وقد وجبت مباشرتہ علیہ، کنکاح الصغار والصغائر فلایحل لہ أخذ الأجرۃ علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الاجرۃ علیہ، کذا فی المحیط، واختلفوا فی تقدیرہ والمختار للفتوی أنہ إذا عقد بکراً یاخذ دیناراً وفی الثیب نصف دیناراً ویحل لہ ذلک ہکذا قالوا کذا فی البرجندی“ (جلد ۳/ص ۳۴۵)
ہاں اتنا مطالبہ کرنا کہ دینے والے کو تکلیف ہو جائز نہیں بلکہ وہاں کے عرف کے اعتبار سے مطالبہ کیاجائے اور جہاں عوام الناس شادیوں میں ڈیجے، ناچ گانے و دیگر منہیات شرعیہ پر بیجا رقم صرف کرتے ہوں تو وہاں ضرور پانچ دس ہزار روپے نذرانے کا مطالبہ کرے تاکہ منہیات شرعیہ امور پر بیجا رقم خرچ کرنے والے کو عبرت ملے،چونکہ ہماری قوم راہ راست سے بھٹک کر بے راہ روی اختیار کر لی ہے شادی کی خوشی میں بیاج پر قرض لیکر نام و نمود کیلئے ناجائز و حرام امور کو انجام دینے میں اور فضول رقم خرچ کرنے میں انہیں نہ تو حیا آتی ہے اور نہ ہی ان کے ماتھے پہ شکن مگر جہاں ناکح نے نزرانہ طلب کر لیا تو ان کی پیشانی پر پسینہ آجاتا ہے اللہ تعالی ہماری قوم کو ہدایت کے راستے پر گامزن فر مائے۔ آمین یا رب العلمین بجاہ سید المرسلین 
کتبہ
فقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی

۲۶/ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ 
۲۴/ نو مبر ۹۱۰۲ء بروز اتوار

دلیل

فتاوی واحدیہ طیبیہ



Tags

एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top