{کیا غوث پاک رضی اللہ عنہ کے دھو بی کا واقعہ صحیح ہے؟}

0

{کیا غوث پاک  رضی اللہ عنہ کے دھو بی کا واقعہ صحیح ہے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ: ۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ حضور سید نا غوث اعظم شیخ عبد القا در جیلا نی بغدا دی رضی اللہ تعا لی عنہ کا ایک مرید تھا جو آپ کے کپڑے مبا رک کو دھلا کر تا تھا جب اس کا انتقال ہوا دفن کے بعد قبر میں منکر نکیر تشریف لا ئے اور سوالات کئے تو اس نے تینوں سوالوں کے جواب میں عبد القادر جیلا نی کہا اور عذاب سے بچ گیا پھر اس کے لئے جنت کی ہوا ئیں آنے لگیں اسکی مغفرت ہوجا تی ہے بعض علما ء کا کہنا ہے کہ جو اس نے تینوں سوالوں کے جواب میں کہا کہ میں غوث پاک کا دھو بی ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلک غوث پاک کا ہے وہی میرا مسلک ہے تقریر کی بعض کتا بوں میں لکھا ہے اور بعض مقررین حضرات تفریح الخاطروالافاضات الیو میہ کے حوالے سے گیا رہویں شریف کے موقع پر بیان کرتے ہیں اس واقعہ کی کو ئی اصل ہے یا نہیں ؟بینوا تو جروا 
المستفتی:۔(مولانا) علی حسن قادری
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب
بخشش اور نجات کا دارو مدار صرف اعمال پر نہیں ہے بلکہ سید عا لم  ﷺ کی شفا عت اور اہل اللہ سے محبت پر بھی ہے کئی ایسی روا یات ہیں جن کو پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ سیدنا غوث اعظم  رضی اللہ تعا لی عنہ کے مریدوں آپ سے محبت رکھنے وا لوں کی ضرور بخشش ہو گی آپ کی ذات با بر کا ت سے ہر قسم کی کرا مات کا صدور بہت توا تر سے ہوا ہے جیسا کہ خلقت کے ظا ہر و با طن میں تصرف جنات و انسان پر حکم جا ری کر نا پو شیدہ با توں کا علم اور اس پر اطلاع اسرار کاظا ہر کر نا دلوں کے بھیدوں سے آگا ہ ہو نا ملک و ملکوت کے مخفیات سے خبر رکھنا موا ہب غیبیہ کا عطا ہو نا مردوں کو زندہ کر نا کوڑھ اور برص کے امراض دور کر نا زمین و آسمان میں امر کا نافذ کر نا لوگوں کی ارادوں کا پھیرنا اشیا ء کی جنس وحقیقت کو بدلنا سورج کا طلوع کے بعد آپ کو سلام کر نا سال اور مہینہ کا حاضر ہو نا مہینوں سا لوں زما نوں میں ہو نے وا لے واقعات کا آپ کو پیشگی سے علم ہو نا وغیرہ تمام اقسام کی کرا مات بین الخاص والعام ارادتاًاظہار دعویٰ بر حق کے طور پر آپ کو حا صل تھیں بڑی سے بڑی بات آپ سے منسوب ہیں لہٰذا اس طرح کی کو ئی کرا مت حضور سے صادر ہو یا کو ئی واقعہ منسوب ہو تو کو ئی بعید کی بات نہیں ہے مگر روایت مذ کو رہ کے با رے میں اختلاف ہے حضرت علا مہ مفتی عبد الوا جد صاحب قا دری فر ما تے ہیں کہ یہی وا قعہ یا اس کے مثل تفریح الخا طر میں ہے لیکن اس کے بیان کر نے میں تحقیق ضرو ری ہے یونہی مبہم طور پر بلا تو ضیح کے بیان کر نا خلاف احتیاط ہے جس سے بچنا بے حد ضرو ری ہے ۔(فتا وی یو رپ ص ۲۳۱)
اور فتاوی فقیہ ملت مفتی جلال الدین علیہ الرحمہ تحرریر فرما تے ہیں کہ روایت مذکورہ بے اصل ہے اس کا بیان کرنا درست نہیں لہذا جس نے اسے بیان کیا وہ اس سے رجوع کرے اور آئندہ رجوع کرے اس روایت کے نہ بیان کرنے کا عہد کرے اگر وہ ایسا نہ کرے تو کسی معتمد کتاب سے اس روایت کو ثابت کرے ۔(فتاوی فقیہ ملت ج ۲؍ص۴۱۱) و اللہ تعا لی و رسو لہ الاعلی اعلم باالصواب 
ازقلم
حقیر محمد علی قادری واحدی








एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top