جسمانی اعضا کی وصیت کرنا کیسا ہے؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ
مسئلہ: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلماء دین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد میری آنکھوں کو یا دوسری اعضاء کو فلاں شخص یا فلاں ہاسپٹل کو عطیہ کر دینا تو اب زید کا انتقال ہو گیا انکے بعض لڑکے عطیہ کرنا چاہتے ہیں اور بعض نہیں تو کیا زید کا وصیت کرنا درست ہے یا نہیں ؟اگر درست ہے تو جو انکار کر رہے ہیں ان پر شریعت کا کیا حکم نافذ ہوگا ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نواز ہوگی
المستفتی:غلام جیلانی مقام کٹیہار (بہار) الھند
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب
انسان کے کسی بھی جزء سے انتفاع کو ناجائز قرار دیا گیا ہے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے جسم کے حصہ کی بیع یا ہبہ ملک غیر میں تصرف کے باعث ناجائز ہےجیسا کہ علامہ کمال الدین علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں والانتفاع بہ لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا وفی بیعہ اھانۃ لہٗ وکذا فی امتھانہ باالانتفاع (فتح القدیر ج؍۶،ص؍۶۳، باب البیع الفاسد)
اور علامہ کاسانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں والاآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والا حترام ابتذالہ بالبیع والشراء (البدائع والصنائع:ج؍۵،ص ۱۴۵،کتاب، البیوع،فصل واماالذی یرجع الی المقصود۔۔۔۔۔الخ)
اس لئے اعضاء انسانی کی خرید وفروخت یا ہبہ وعطیہ شریعت کے خلاف و ناجائز ہے۔
اور جب ہبہ وعطیہ ناجائز ہے تو اس کی وصیت بھی باطل ہوگی کیونکہ وصیت اس شئ میں کی جاتی ہے جو ملکیت میں ہو اور عضاء انسانی انسان کے ملکیت سے خارج ہے
علامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میت نے وصیت کی تھی کہ میری نماز فلاں پڑھائے یا مجھے فلاں شخص غسل دے تو یہ وصیت باطل ہے یعنی اس وصیت سے ولی کا حق جاتا نہ رہے گا، ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اس سے پڑھوا دے۔ (الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس، ج۱، ص۱۶۳، بحوالہ بہار شریعت ح ۴/جنازہ کا بیان)
چونکہ جنازہ پڑھانے کا حق ولی کو حاصل ہے یہ میت کا حق نہیں ہے اس لئے وصیت کو باطل کہا گیا ہے یونہی اعضاء کی وصیت بھی باطل ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے بلکہ امین ہے اور امانت میں خیانت جائز نہیں ہے.واللہ اعلم بالصواب
کتبہ