(زکوۃ کا تین مسئلہ؟)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ!
(الف) زکوۃ کی رقم دارالعوام میں صرف کرنے کیلئے کیا حیلہ شرعی ضرور ی ہے؟
(ب) اس حیلہ شرعی کی حکمت کیا ہے؟
(ج) زید کا کہناہے کہ کسی فقیر ومسکین کے ہاتھ سے حیلہ شرعی کرنے کے بجائے کیوں نہ ہم خود طالب علم یا ا ن کے والد کے ہاتھ زکوۃ
کی رقم تھما دیں؟دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا زید کا قول درست ہے؟ کیا اسطرح زکوۃ ادا ہوجائے گی؟قرآن وحدیث کی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
المستفتی۔محمد حضیرالدین مصباح ناظم اعلی دارالعلوم اہل سنت انوار مصطفی شاہ پورا گوگاواں ضلع کھرگون مدھیہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
(ا)در العلوم اگر غیر زکوۃ کے رقم سے نہ چل سکتا ہو تو اس کے لئے زکوۃ کی رقم خرچ کرسکتے ہیں اور اس کے لئے حیلہ شرعی ضروری ہیکہ بغیر حیلہ شرعی جا ئز نہ ہو گا۔
(ب) حیلہ مطلب بہانا اور شرعی مطلب شریعت یعنی حیلہ شرعی کا مطلب ہوا شریعت کی طرف سے بہانا۔
چونکہ مدرسہ میں مال زکوۃ کو لگانا یعنی صرف کرنا ناجائز و حرام ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ جب دین کا کام بغیر مال زکوۃ سے نہ ہو پا رہا ہو تو حیلہ کرکے جا ئز کرلیاجا ئے اور اس کا ثبوت احادیث طیبہ سے ہے جیسا کہ مسند احمد میں ہے”عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّہُ تُصُدِّقَ عَلَی بَرِیرَۃَ مِنْ لَحْمِ الصَّدَقَۃِ فَذُہِبَ بِہِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقِیلَ إِنَّہُ مِنْ لَحْمِ الصَّدَقَۃِ قَالَ إِنَّمَا ہُوَ لَہَا صَدَقَۃٌ وَلَنَا ہَدِیَّۃٌ“حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بریرہ کے پاس صدقہ کا گوشت کہیں سے آیا، انہوں نے وہ نبی ﷺ کے پاس ہدیہ کے طور پر بھیج دیا، نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ صدقہ کا گوشت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا یہ اس کے لئے صدقہ تھا، اب ہمارے لئے ہدیہ بن گیا ہے۔مسند احمد(مسند احمدحدیث نمبر۲۴۰۵۹)
چونکہ نبی کریم ﷺ کے لئے صدقہ جائز نہیں تھا اس لئے حضور علیہ السلام کو بتایا گیا کہ حضور یہ تو صد قہ ہے جو آپ نہیں کھاتے تو حضور ﷺ نے فرمایا صدقہ (حضرت)بریرہ (رضی اللہ عنہ)کے لئے تھا پھر اس نے مجھے اپنی طرف سے دے دیا تو اب یہ میرے لئے صدقہ نہیں رہ گیا بلکہ میرے لئے ہدیہ اور جا ئز ہو گیا۔
یونہی مال زکوۃ کو کسی مستحق زکوۃ کو دے کر مالک بنا دیاجا تا ہے پھر وہ اپنی طرف سے دے دیتا ہے تو وہ زکوۃ نہیں رہ جا تا بلکہ جا ئز ہوجا تا ہے،مگر یہ حیلہ ہر جگہ اور ہر ایک کے لئے نہیں ہے بلکہ دین کی خدمت کے لئے کیاجا تا ہے جبکہ اس کی اشد ضرورت ہو تی ہے اور اگر یہی اپنی ذات کے لئے کیا جا ئے یاناجائز کام کے لئے کیاجا ئے تو حیلہ کرنے کے بعد بھی جا ئز نہ ہوگاجیسا کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے”ھی مایتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی۔وھی عند العلماء علی اقسام بحسب الحامل علیھا۔فان توصل بھا بطریق مباح الی ابطال حق او اثبات فھی حرام“حیلہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے کسی مقصود تک پہنچنا،اور علماء کے نزدیک حیلہ کرنے والے کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام ہیں: اگر جائز طریقے سے غیر کے حق کو باطل یا باطل چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حرام ہے“ (فتح الباری،شرح صحیح بخاری،ج۱۲/ص۴۰۴)
(ج) اگر طالب علم یا انکے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں تو زکوۃ ادا ہوجا ئے گی مگر مدرسہ نہیں چل پا ئے گا کہ مدرسہ میں اور بھی ضروریات رہتے ہیں جیسے مدرسین کی تنخواہ مطبخ خرچ و دیگر اخراجات،ہاں اگر طالب علم یا ان کے والدین لیکر مدرسہ میں اپنی رضا سے دے دیں تو کو ئی حرج نہیں جبکہ وہ مستحق زکوۃ ہوں ۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی