(جا نور کو ذبح گھاٹی کے اوپر سے کرنا چا ہئے یا نیچے سے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جانور کو ذبح کہاں سے کیا جا ئے گلے میں جو گھاٹی ہوتا ہے اس کے اوپر سے یا نیچے سے؟بعض لوگ کہتے گھاٹی کو کاٹنا چا ہئے پھر ذبح درست ہو گا؟رہنما ئی فرما ئیں کیا درست ہے
المستفتی:۔محمد آفتاب عالم گونڈہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہو ئے سرکا ر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ اس مقام میں تحقیق یہ ہے کہ ذبح میں گھنڈی کا اعتبار نہیں، چاروں رگوں میں سے تین کٹ جانے پر مدارہے۔ اگر ایک یا دو رگ کٹی حلال نہ ہوگا اگرچہ گھنڈی سے نیچے ہو، اور اگر چاروں یا کوئی سی تین کٹ گئیں تو حلال ہے اگر چہ گھنڈی سے اوپر ہو۔
ردالمحتار میں ہے”ان کان بالذبح فوق العقدۃ حصل قطع ثلثۃ من العروق فالحق ماقالہ شراح الہدایۃ تبعا للرستغفنی والا فالحق خلافہ، اذلم یو جد شرط الحل باتفاق اہل المذہب، ویظھر ذٰلک بالمشاہدۃ اوسوال اہل الخبرۃ، فاغتنم ہذا المقال ودع عنک الجدال“اگر گھنڈی سے اوپر ذبح میں چار میں سے تین رگیں کٹ گئیں جو ہدایہ کے شارحین نے رستغفنی کی اتباع میں کہا وہ حق ہے ورنہ حق اس کے خلاف ہے کیونکہ اہل مذہب کی متفقہ شرط برائے حلت نہ پائی گئی یہ معیار مشاہدہ سے ظاہر ہوگا یا ماہرین سے پوچھنے پر ظاہرہوگا اس مقالہ کوغنیمت سمجھوا ور جھگڑا ختم کرو۔(ردالمحتار کتاب الذبائح داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۷۸/۵/بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۲۰/ ص ۲۲۰/۲۱۹/ دعوت اسلا می)
نیز فرما تے ہیں ہمارے ائمہ کرام کا اجماع ہے کہ اگر تین رگیں کٹ گئی ہوں تو ذبیحہ حلال ہے،یہ معیار شاہدہ سے یا ماہر سے دریافت کریں، پہلے فتوٰی میں یہی لکھا گیا تھا اور یہی فیصلہ علامہ شامی کا ردالمحتارمیں ہے اور ایک بار اس فقیر نے بطور امتحان مشاہدہ کیا تو فوق العقدہ سے بھی تمام رگیں کٹی ہوئی تھیں۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۰/ ص ۲۲۲/ دعوت اسلا می)واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۳/ ذی الحجہ ۱۴۴۰ھ