(شہری آدمی دیہات میں قربانی کب کرائے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔مولانا تاج محمد قادری واحدی صاحب قبلہ آپ نے اپنے ایک فتوی میں فرمایا کہ شہر میں نماز کے بعد قربا نی کرنا چا ہئے اگر اس سے پہلے قربا نی کی تو نہ ہو گی اب معلوم کرنا ہے کہ میں کرناٹک میں ہوں جبکہ میری طرف سے قربانی گاؤں میں ہوگی تو کیا پتہ گھر والوں کو کہ میری نماز ہو ئی ہے یا نہیں اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟کیا میں نماز پڑھنے کے بعد بتادوں پھر قربا نی کی جا ئے یا وہاں نماز ہو نے کے بعد کر سکتے ہیں؟بینوا توجروا
المستفتی:۔شاکر علی کرنا ٹک
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
میں نے یہ لکھا ہے کہ شہر میں قربا نی کرنے والا نماز سے پہلے نہیں کرسکتا،چونکہ آپ اگر چہ شہر میں ہیں مگر اپنی قربا نی دیہات میں کروانا چا ہتے ہیں تو وہاں کا اعتبار ہوگا یعنی دیہات میں طلوع فجر کے بعد کروا سکتے ہیں کو ئی حرج نہیں جسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ دیہات میں عید جائز نہیں قربانی اگر گاؤں میں ہو طلوع صبح کے بعد ہوسکتی ہے اگرچہ شہری نے اپنی قربانی وہاں بھیج دی ہو، اور اگر قربانی شہرمیں ہو جہاں نماز عید واجب ہے تو لازم ہے کہ بعد نماز ہو، اگرنماز سے پہلے کرلی قربانی نہ ہوئی اگر چہ قربانی دیہاتی کی ہو کہ اس نے شہر میں کی۔درمختارمیں ہے”اول وقتہا بعد الصلاۃ ان ذبح فی مصر) ای لو اسبق صلوۃ عید ولوقبل الخطبۃ لکن بعد ہا احب (وبعد طلوع فجر یوم النحر ان ذبح فی غیرہ) والمعتبر مکان الاضحیۃ لامکان من علیہ فحیلۃ مصری ارادالتعجیل ان یخرجہا الخارج المصر فیضحی بہا اذااطلع الفجر۔ مجتبی“اگر شہر میں قربانی دینی ہو تو اس کا وقت نمازکے بعد شروع یعنی نماز عید سے پہلے ہو اگر چہ قربانی خطبہ سے پہلے کرے بعد از خطبہ افضل ہے، اور قربانی شہر میں نہ ہو تو اس کا اول وقت بعد از طلوع فجر بروز عید قربان، اس فرق میں قربانی کا مقام معتبر ہے نہ کہ قربانی والے کا مقام شہری کے لئے قربانی جلدی کرنے کاحیلہ یہ ہے کہ وہ جانور کو شہر سے خارج لے جا کر فجر کے بعد قربانی کرے۔(درمختار کتاب الاضحیۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۳۲/ بحوالہ فتاوی رضو یہ جلد ۲۰/ ص ۲۵۲/ دعوت اسلامی)واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۲۸/ شوال المکرم ۱۴۴۱ھ