(جانور کی عمر کتنی ہو نی چا ہئے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قربانی کے لئے جانور کی عمر کتنی ہو نی چا ہئے؟اگر بکرے کی عمر ایک دو دن کم ہو تو قربانی ہو گی یا نہیں؟جب کہ دیکھنے میں ایک سال سے بھی بڑا دکھ رہا ہے؟بینوا توجروا المستفتی:۔عبد الجبار سنت کبیر نگر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
قربانی کے لئے اونٹ کی عمر پانچ سال،گائے، بھینس، کی عمر دوسال،اور بکرا،بکری،بھیڑ، دنبہ، کی عمر ایک سال ہونا چاہئے جیسا کہ درمختارمیں ہے”صح ابن خمس من الابل۔ وحولین من البقر والجاموس وحول من الشاۃ والمعز“پانچ سال کا اونٹ، دو سال کی گائے اور بھینس، اور ایک سال کی بکری اور بھیڑ، کی قربانی صحیح ہے۔ (درمختار کتاب الاضحیۃ)
اس سے ایک دن کیا ایک منٹ بھی کم رہا تو قربانی جا ئز نہ ہو گی البتہ دنبہ،بھیڑ چھ ماہ کا ہو تو اسکی قربانی درست ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ”وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ نِعْمَۃُ الْاَضْحِیَّۃُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ“اور حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنبہ کے چھ ماہ کے بچہ کی قربانی درست ہے۔ (جامع ترمذی،مشکوٰۃ المصابیح، قربانی کا بیان،حدیث نمبر۲۴۴۱)
مگر اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں ایک سال کا دکھ رہا ہو جیسا کہ درمختار میں ہے”صح الجذع ذوستہ اشہر من الضان ان کان بحیث لوخلط بالثنایا لایمکن التمیز من بعد“ بھیڑ میں چھ ماہ کا جذع جو سال والے جانوروں میں خلط ہو تو امتیاز نہ ہوسکے تو وہ جائز ہے۔ (درمختار کتاب الاضحیۃ)
اور علا مہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیے اونٹ پانچ سال کا گائے دو سال کی بکری ایک سال کی اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔(الدرالمختارکتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۳۳/ بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵/ قربانی کا بیان)واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۲۵/ شوال المکرم۱۴۴۱ ھ