(قربا نی نہ کرکے غریبوں کی مدد کرنا کیسا ہے؟)

0

(قربا نی نہ کرکے غریبوں کی مدد کرنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

مسئلہ:۔زید کہتا ہے کہ جو جانوروں کو ہر سال مسلمان ملکوں میں حج کے موقع پر ذبح کیا جاتا ہے اسکا کوئی جواز قرآن کریم سے نہیں ملتا۔اسلئے یہ مسلمان ملکونکی معشیت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔اگر کسی سکالر کے پاس اسکا جواز ہے تو وہ قرآن کی آیت پیش کرے۔ورنہ اپنی غلطی تسلیم کرے۔اور جو معشیت کی تباہی ہوئی ہے اسکا ذمہ دار بنے اس سے بہتر ہے کہ اس دولت سے ملک کے ہر محلے میں سوشل آفس کھولے جائیں جہاں غریبوں کی مدد کی جائے۔
علمائے کرام کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ اوپر جو عبارت ہے شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں.
المستفتی:۔محمد نوید اصغر لاھور پاکستان

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب ھو الھادی الی الصواب

زید کا یہ کہنا کہ قربانی کا جواز قرآن شریف میں نہیں ملتا اسلئے یہ مسلمان ملکوں کی معشیت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں یہ سراسر جہالت اور ہٹ دھرمی ہے اور اگرزید جا ہل نہیں تو گمراہ ہے ارشاد ربا نی ہے ”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(سورہ کو ثر آیت نمبر ۲)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے ذریعہ قیامت تک کے مسلمانوں کونماز پڑھنے اور قربا نی کرنے کا حکم دیا نیز یہ بھی فرمایا کہ خاص اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اورقربا نی کرو۔ اوردوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے ”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“تم فرماؤ بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو رب سارے جہان کا۔(سورۃ الأنعام آیت نمبر ۱۶۲)
اور اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سے کہہ رہا ہے محبوب تم کہہ دو کہ میری نماز میری قربا نی اللہ کے لئے ہے،اور زید(جو نرا جا ہل یا پھر گمراہ ہے)کہہ رہا ہے کہ قربا نی نہ کروبلکہ ”اس دولت سے ملک کے ہر محلے میں سوشل آفس کھولے جائیں جہاں غریبوں کی مدد کی جائے“میں زید سے پو چھتا ہوں کہ تجھے قرآن میں قربا نی کے جواز پر آیت نہ ملی تو بتا کہ قرآن کی وہ کون سی آیت ہے جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ ملک کے ہر محلے میں سوشل آفس کھولے جائیں؟اگرایسی کوئی آیت زید کے پاس ہے تو پیش کرے(میں کہتا ہوں قیامت تک نہیں پیش کرسکتا ہے)تو پھر اپنی غلطی تسلیم کرے اور جوبکواس تحریر کی ہے اسکا ذمہ دار بنے اور جملہ مؤمنین سے معافی مانگے ورنہ قیامت میں دامن گیر ہونگے۔
زید کا یہ کہنا کہ قربا نی کے بجائے غریبوں کی مدد کی جا ئے یہ ایسے ہی ہے جیسے زید بکر سے قرض لیا اور اس کو دینے کے بجا ئے عمر کی مدد پو ری کرے اور اس پر خرچ کرے یاد رکھیں کہ عمر کی مدد کرنے پر ثواب ضرور ملے گا مگربکر کی قرض اس کے ذمہ باقی رہے گا اور نہ دینے کی صورت میں گنہگار ہو گا،دنیا میں ذلیل اور آخرت میں حقوق العبد میں گرفتار ہوگا،یونہی قربا نی کا معاملہ ہے کہ نہ کرنے کی صورت میں گنہگار ہو گااور یوم آخرت حقوق اللہ میں گرفتار ہوگا۔
اگر چہ غریبوں کی مدد کرنے پر ثواب ہے مگر قربا نی کاثواب کہاں ملنے والا کہ قربا نی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ”وَعَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِی قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصَّوْفُ یَا رَسُوْلَ اللہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصَّوْفِ حَسَنَۃٌ“ اور حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے اصحاب نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ (یعنی ان کی سنت ہے،صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺپھر اس میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے صحابہ نے عرض کیا کہ صوف (یعنی دنبہ، بھیڑ اور اونٹ کی اون اور اس کے بدلہ میں کیا ثواب ملتا ہے؟) فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔ (احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ/مشکوٰۃ المصابیح،قربانی کا بیان حدیث نمبر ۱۴۴۹)
بال کے بد لے میں نیکی اسی وقت ملے گی جب جانور ذبح کیاجا ئے گا نہ کی صدقہ کرنے پر ملے گا اگر ایسا ہو تا تو نبی کریم ﷺ قربانی کرنے کا حکم نہ دیتے بلکہ صدقہ کرنے کا حکم دیتے مگر ایسا نہ حکم نہ دیابلکہ ارشاد فرمایا ایام قربانی میں قربانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ ابن آدم کا کوئی عمل پسند نہیں کرتا جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں ”عَنْ عَاءِشَۃَ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا، أَحَبَّ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ہِرَاقَۃِ دَمٍ، وَإِنَّہُ لَیَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُونِہَا،وَأَظْلَافِہَا، وَأَشْعَارِہَا، وَإِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ، فَطِیبُوا بِہَا نَفْسًا“ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایایوم النحر(دسویں ذی الحجہ) کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام  مقبول میں پہونچ جاتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو۔(سنن ابن ماجہ قربانی کا بیاحدیث نمبر۳۱۲۴)
اگر کوئی ایام قربا نی میں لاکھ اشرفیاں تصدق کردے پھر بھی قربانی کاثواب نہیں پا سکتا سرکا ر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ جس پر قربا نی واجب ہے وہ اگر ایام قربا نی میں بجا ئے قربا نی دس لا کھ اشرفیاں تصد ق کرے قربا نی ادا نہ ہو گی واجب نہ اترے گا گنہگا رمستحق عذاب رہے گا۔درمختار میں ہے ”رکنھا ذبح فتجب الراقۃ الدم“قربانی کی حقیقت کا جز ذبح کرنا ہے تو خون بہانا ہی ضرور ہے۔ردالمحتار میں نہایہ سے ہے ”لان الا اضحیۃ انما تقوم بھذا  الفعل  فکان رکنا“اس لئے کہ قربانی اسی فعل ذبح سے تحقق ہو ئی ہے تو ذبح اس کی حقیقت کا جز ہوا۔ (فتا ویٰ افریقہ ص۱۶۳/ مسئلہ نمبر ۱۰۵)
فتا ویٰ عا لمگیری میں ہے,,لا یقو م غیر ھا مقا مھا فی الوقت حتی لو تصدق بعین الشاۃ او قیمتھا فی الوقت لا یجزۂ عن الاضحیۃ،، (ج ۵ص۲۹۳)
اور علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلا بجائے قربانی اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر دی یہ ناکافی ہے۔(بہار شریعت ح ۱۵/ قربانی کا بیان) 
سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ زید مسلمانوں کو شہد دکھا کر زہر پلانا چاہتا ہے یعنی غریبوں کی مدد کی آڑمیں مسلمانوں سے قربانی بند کروانا چاہتا ہے یا د رہے قربانی ترک کرکے غریبوں کی مدد کرنا حرام ہے،سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ آج کل سمرنافنڈ میں صاحب زکوٰۃ سے زکوٰۃ اور جن پر قربانی واجب ہے اُن سے قربانی کی قیمت طلب کررہے ہیں اور اس کے لئے گجراتی بڑے لمبے چوڑے اشتہار چھپے ہیں کیا صاحبِ زکوٰۃ اور جن پر قربانی واجب ہے اُن کی قربانی سمرنافنڈ میں دینے سے ہوجائے گی؟تو آپ رضی اللہ عنہ جواب میں تحریر فرما تے ہیں کہ جس پر قربانی واجب ہے اُسے حرام ہے کہ قربانی نہ کرے اور اس کی قیمت کسی فنڈمیں دے دے اس سے ہرگز قربانی ادا نہ ہوگی واجب کا تارک ہوگا اور عذاب کا مستحق۔الخ(فتاوی رضویہ جلد ۱۰/ ص۲۹۴ /دعوت اسلامی) 
ہم زید سے پو چھنا چا ہتے ہیں کہ کیا غریبوں کی مدد کرنے کے لئے قربانی بند کرنا ضروری ہے؟کیا کو ئی اور راستہ نہیں ہے؟ ایک سکریٹ کم سے کم دس روپئے اور گٹکھا کم سے کم دس روپئے کا ملتا ہے اور تقریبا کھانے والے تین بار سے زائد کھا تے پیتے ہیں اگر اس کو بند کردیں تو ایک شخص کا دن کا ساٹھ روپیہ بچے گا مہینے کا اٹھا رہ سو اور سال کا اکیس ہزار چھ سو روپیہ بنتا ہے کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ اسے بند کردیاجا ئے تواسی قیمت میں قربا نی بھی ہو جا ئے گی اور غریبوں کی مدد بھی کرلیں گے۔ اس کے علاوہ اور راستہ ہے جس کے ذریعہ غریوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔اللہ تعا لیٰ سمجھنے کی تو فیق عطا فرما ئے اور شریعت مصطفی پر چلنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

کتبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 

۲/ذی القعدہ  ۱۴۴۱ھ 
۲۴/ جون ۲۰۲۰ بروز بدھ



تعلیمات وارث انبیاء


एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top