(قربانی کا جانور کس طرح ہو نا چا ہئے؟)

0

(قربانی کا جانور کس طرح ہو نا چا ہئے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قربانی کا جانور کس طرح ہو نا چا ہئے؟بینوا توجروا
المستفتی:۔ شمس الدین راج گرو نگر(کھیڑ)

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب

قربانی کا جانور تندرست و فربہ ہو نا چا ہئے، تمام عیب سے خالی ہونا چاہئے حدیث شریف میں ہے ”عَنْ عَلِیٍّ قَالَ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْاُذُنَ وَاَنْ لَّا نُضَحِّیَ بِمُقَابَلَۃٍ وَلَا مُدَآبَرَۃٍ وَّلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَلنِّسَاءِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَانْتَھَتْ رِوَایَتُہ، اِلَی قَوْلِہٖ وَالاذُن“ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،قربانی کا بیان،حدیث نمبر ۱۴۳۷)

علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ جس جانور میں جنوں ہے اگر اس حد کا ہے کہ وہ جانور چرتا بھی نہیں ہے تو اس کی قربانی ناجائز ہے اور اس حد کا نہیں ہے تو جائز ہے۔ خصی یعنی جس کے خصیے نکال لئے گئے ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لئے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے۔ اتنا بوڑھا کہ بچہ کے قابل نہ رہا یا داغا ہوا جانور یا جس کے دودھ نہ اوترتا ہو ان سب کی قربانی جائز ہے۔ خارشتی جانور کی قربانی جائز ہے جبکہ فربہ ہو اور اتنا لاغر ہو کہ ہڈی میں مغز نہ رہا تو قربانی جائز نہیں۔ (الدرالمختاروردالمحتارکتاب الأضحیۃ، ج۹، ص۵۳۵؍بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵؍ قربا نی کا بیان)

             نیز فرما تے ہیں بھینگے جانور کی قربانی جائز ہے۔ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں اور کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو اس کی بھی قربانی ناجائز۔ اتنا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے اور اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان یا دم یا چکی کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے اور اگر کان یا دم یا چکی تہائی یا اس سے کم کٹی ہو تو جائز ہے جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو اوس کی ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں اوس کی جائز ہے۔ جس جانور کی تہائی سے زیادہ نظر جاتی رہی اوس کی بھی قربانی ناجائز ہے اگر دونوں آنکھوں کی روشنی کم ہو تو اس کا پہچاننا آسان ہے اور صرف ایک آنکھ کی کم ہو تو اس کے پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کو ایک دو دن بھوکا رکھا جائے پھر اوس آنکھ پر پٹی باندھ دی جائے جس کی روشنی کم ہے اور اچھی آنکھ کھلی رکھی جائے اور اتنی دور چارہ رکھیں جس کو جانور نہ دیکھے پھر چارہ کو نزدیک لاتے جائیں جس جگہ وہ چارے کو دیکھنے لگے وہاں نشان رکھ دیں پھر اچھی آنکھ پر پٹی باندھ دیں اور دوسری کھول دیں اور چارہ کو قریب کرتے جائیں جس جگہ اس آنکھ سے دیکھ لے یہاں بھی نشان کر دیں پھر دونوں جگہوں کی پیمائش کریں اگر یہ جگہ اوس پہلی جگہ کی تہائی ہے تو معلوم ہوا کہ تہائی روشنی کم ہے اور اگر نصف ہے تو معلوم ہوا کہ بہ نسبت اچھی آنکھ کی اس کی روشنی آدھی ہے۔

جس کے دانت نہ ہوں یاجس کے تھن کٹے ہوں یا خشک ہوں اس کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے اور گائے بھینس میں دو خشک ہوں تو ناجائز ہے۔ جس کی ناک کٹی ہو یا علاج کے ذریعہ اس کا دودھ خشک کر دیا ہو اورخنثی جانور یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں اور جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ (الدرالمختارکتاب الأضحیۃ،ج۹،ص ۵۳۷/بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵/ قربا نی کا بیان) 

جس جانور کے دانت نہ ہو مگرگھاس کھانے کی صلاحیت رکھتاہوتواس کی قربانی جائزہے جیساکہ بحرالرائق، ج۸، ص۳۲۳/ الھدایۃج۲/ص۳۹۵/تبیین الحقائق،ج۶/ص۴۸۱/الفتاوی الخانیۃ،ج۲/ص۳۳۴/الفتاوی الھندیۃ،ج۵/ص۲۹۸/ پرمذ کور ہے۔(بہار شریعت ح ۱۵/قربا نی کا بیان حاشیہ)

خلاصہ کلا یہ ہے کہ جانور تمام عیوب سے خالی ہونا چاہئیاگر تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ (تنزیہی) ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔واللہ اعلم بالصواب

کتبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 

۲۸/ شوال المکرم ۱۴۴۱ ھ   
۲۱/ جون  ۲۰۲۰ ء بروز اتوار



فتاوی واحدیہ طیبیہ



एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top