(کیامدرسے کی اینٹ کو استعمال میں لا سکتے ہیں؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک مدرسہ ہے جو پہلے پترے کا تھا الحمدللہ اب پکا بن چکا ہے اور پترہ مدرسہ میں رکھا ہوا ہے، ابھی بارش کے موسم میں کہیں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کسان لوگ مکئی مدرسے میں رکھتے ہیں اور مدرسے کے پترے کو مکہ ڈھانپنے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں، نیز دیوار کھڑی کرنے کیلئے کچھ اینٹیں مدرسہ میں رکھی ہوئی ہیں کچھ لوگ گائے بیل کے گھونٹا گاڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ یہ کہکر مدرسہ کے اینٹ کو اپنے کام استعمال کرتے ہیں کہ ابھی مدرسہ کا کام بند ہے جب شروع ہوگا ہم جتنی اینٹیں لے جاتے ہیں اتنی ہی اینٹیں واپس کر دیں گے دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو لوگ استعمال کرتے ہیں ان کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور جو دیکھنے کے با وجودمنع نہ کریں ان کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟گزارش ہے جواب عنایت فرمائیں۔
نوٹ:۔ اگر ۲۱/ بجے تک جواب مل جائے تو کرم نوازش ہوگی تاکہ جمعہ میں بتادیا جائے
المستفتی:۔(قاری)محمد مشتاق احمد رضوی کشن گنج بہار
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب
مدرسہ علم حاصل کرنے کے لئے بنایاجا تا ہے نہ کہ لوگوں کو مکئی رکھنے یا دیگر ضروریا ت پو ری کرنے کے لئے جو لوگ مدرسہ میں مکئی رکھتے ہیں وہ شرعا گنہگار ہیں ان سب پر علانیہ تو بہ لازم ہے اگر چہ وہ اس کا بھاڑا بھی دیں،ہاں اگر اس کمرے کو اسی نیت سے یعنی لوگوں کے سامان رکھنے کے لئے یا بھا ڑے پر دینے کے لئے بنا یاگیا ہے تو حرج نہیں،جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ کرایہ پر دینے کے لئے وقف ہوں تو متولی دے سکتاہے مگر جو مسجد پر اس کے استعمال میں آنے کیلئے وقف ہیں انہیں کرایہ پر دینا لینا حرام کہ جو چیز جس غرض کیلئے وقف کی گئی دوسری غرض کی طرف اسے پھیرنا ناجائزہے اگرچہ وہ غرض بھی وقف ہی کے لئے فائدہ کی ہو کہ شرط واقف مثل نص شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واجب الاتباع ہے۔درمختارکتاب الوقف”فروع قولھم شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ“واقف کی شرط شارع علیہ الصلوٰہ والسلام کی نص کی طرح واجب العمل ہے(درمختار فصل یراعی شرط الواقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۹۰/ بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۶/ص ۳۵۴ /دعوت اسلامی )
پترہ دینے والے نے اگر وقف کردیا تھا یا مدرسہ کی رقم سے خریدا گیا تھا توتو اب اس میں کسی کو اختیار نہیں کہ یہ وقف ہو گیا اور مال وقف میں تصرف ناجائزو حرام ہے اور اسکا حکم مثل مال یتیم کے ہے جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ مال وقف مثل مال یتیم ہے جس کی نسبت ارشادہوا کہ جواسے ظلماً کھاتاہے اپنے پیٹ میں آگ بھرتا ہے اور عنقریب جہنم میں جائے گا”ان الذین یاکلون اموال الیتٰمٰی ظلماً انما یا کلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا“(القرآن الکریم ۱۰/۴)
اگر وہ لوگ اس حرکت سے باز نہ آئیں ان سے میل جول چھوڑدیں،ا ن کے پاس بیٹھنا روا نہ رکھیں ”قال اللہ تعالی واما ینسینک الشیطن فلاتقعد بعدالذکری مع القوم الظٰلمین“اللہ تعالی نے فرمایا جب کبھی شیطان تجھے بھلادے تو پھر یاد آنے پر ظالموں کے ساتھ مت بیٹھ۔(القرآن الکریم ۶۸/۶/فتاوی رضویہ جلد ۱۶/ ص ۲۴۴/ دعوت اسلامی)
اور یہی حکم اینٹ کا ہے کہ کسی کو گھونٹی گاڑنے کے لئے لے جانا جا ئز نہیں نہ ہی اپنے کام میں صرف کرنے کے لئے اگر چہ بعد میں دینے کا ارادہ ہو جیسا کہ علا مہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ مسجد کے لئے چندہ کیا اور اس میں سے کچھ رقم اپنے صرف میں لایا اگرچہ یہی خیال ہے کہ اس کامعاوضہ اپنے پاس سے دے دے گاجب بھی خرچ کرنا نا جائز ہے۔ (بہار شریعت ح۱۰/مسجد کا بیان)
خلاصہ یہ ہے کہ وقف کردہ شیئ میں کسی کو تصرف جا ئز نہیں اگر چہ متولی ہو کیونکہ وقفی مال کسی کی ملکیت میں نہیں رہتا ہے ”الواقف لایملک“خواہ وہ مسجد کا سامان ہو یا مدرسہ یا یا قبرستان وغیرہ کا۔لہذا سامان رکھنے والے واینٹ لے جانے والے مؤمنین کو چا ہئے کہ شریعت کی پا بندی کریں اور اپنے اس افعال قبیحہ سے توبہ کرلیں اور آئندہ ایسا کام نہ کریں، یونہی جملہ مسلمان پر لازم ہے کہ کسی کومدرسہ میں سامان نہ رکھنے دیں اور نہ ہی اینٹ لے جانے دیں ورنہ وہ بھی گنہگار ہونگے بالخصوص متولی پر لازم ہے کہ سختی سے منع کرے اور اگر متولی منع نہ کرے تو انہیں متولی سے ہٹا دیاجائے اور کسی دوسرے شخص کو بنادیاجا ئے جو پابند شرع ہو۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی