(کیا قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق ہے؟)

0

(کیا قربانی اور زکوۃ کے نصاب میں فرق ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ قربانی کا نصاب کیا ہے؟کیا زکوۃ اور قربانی کے نصاب میں فرق ہے؟ مع حوالہ تحریر فرما ئیں                                                              
المستفتی:۔خالد رضا نظامی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
قربانی کا وہی نصاب ہے جو زکوۃ فطرہ کا ہے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی (یعنی653.184گرام  چھ سو ترپن گرام ایک سو چو راسی ملی گرام چاندی)یااس کی قیمت یا سا مان تجا رت۔(عامہ کتب فقہ)

زکوۃ،قربانی وفطرہ کا ایک ہی نصاب ہے یعنی وہی ساڑھے باون تولی چاندی مگر دونوں کے وجوب میں فرق ہے مثلا کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی حاجت اصلیہ کے علاوہ نہیں ہے البتہ اس کے پاس  ٹیلی ویژن ہے یا غیر عالم کے پاس کتاب ہے یا گھر میں دو تین گارڑی ہے یا گھر کے دیگر سامان جو ضرورت سے زائد ہیں تو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس سے زائد ہے تو زکوۃ واجب نہیں ہے مگروہ شخص زکوۃ نہیں لے سکتااور فطرہ وقربانی اس پر واجب ہے سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ قربانی واجب ہو نے کے لئے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علا وہ ۶۵/روپیہ کا مالک ہو(۶۵/ روپیہ اُس وقت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تھی اس لئے ۶۵/ روپیہ کامالک ہو یعنی نصاب کا مالک ہو)چا ہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت،کاشت کار کے ہل بیل حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ان کا شمار نہ ہو۔(فتا ویٰ رضویہ ج۲۰/ص۳۷۰ /دعوت اسلامی)

اور علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں تونگریؔ یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوۃ واجب ہوتی ہے(یعنی)جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں۔(الفتاوی الھندیۃکتاب الأضحیۃ،الباب الاول فی تفسیرھا...إلخ،ج۵،ص۲۹۲//بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵/ قرانی کا بیان)

ایک دوسری جگہ فرما تے ہیں کہ کسی کے پاس دو سو درہم کی قیمت کا مصحف شریف (قرآن مجید)ہے اگر وہ اوسے دیکھ کر اچھی طرح تلاوت کرسکتا ہے تو اوس پر قربانی واجب نہیں چاہے اوس میں تلاوت کرتا ہو یا نہ کرتا ہو اور اگر اچھی طرح اوسے دیکھ کر تلاوت نہ کرسکتا ہو تو واجب ہے۔ کتابوں کا بھی یہی حکم ہے کہ اوس کے کام کی ہیں تو قربانی واجب نہیں ورنہ ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الأضحیۃ،الباب الاول فی تفسیرھا.الخ،ج۵،ص۲۹۳/بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵/ قرانی کا بیان) 

نیز فرماتے ہیں کہ جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں۔(الفتاوی الھندیۃکتاب الأضحیۃ،الباب الاول فی تفسیرھا...إلخ،ج۵،ص۲۹۲/بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵/ قرانی کا بیان) 

اور فرما تے ہیں ایک مکان جا ڑے کے لئے اور ایک گرمی کے لیے یہ حاجت میں داخل ہے ان کے علاوہ اس کے پاس تیسرا مکان ہو جو حاجت سے زائد ہے اگر یہ دو سو درہم کا ہے تو قربانی واجب ہے اسی طرح گرمی جاڑے کے بچھونے حاجت میں داخل ہیں اور تیسرا بچھونا جو حاجت سے زائد ہے اوس کا اعتبار ہوگا۔ غازی کے لیے دو گھوڑے حاجت میں ہیں تیسرا حاجت سے زائد ہے۔ اسلحہ غازی کی حاجت میں داخل ہیں ہاں اگر ہر قسم کے دو ہتھیار ہوں تو دوسرے کو حاجت سے زائد قرار دیا جائے گا۔ گاؤں کے زمیندار کے پاس ایک گھوڑا حاجت میں داخل ہے اور دو ہوں تو دوسرے کو زائد مانا جائے گا۔ گھر میں پہننے کے کپڑے اور کام کاج کے وقت پہننے کے کپڑے اور جمعہ و عید اور دوسرے موقعوں پر پہن کر جانے کے کپڑے یہ سب حاجت میں داخل ہیں اور ان تین کے سوا چوتھا جوڑا اگر دو سو درہم کا ہے تو قربانی واجب ہے۔(ردالمحتارکتاب الأضحیۃ،ج۹،ص۵۲۱/بحوالہ بہار شریعت ح ۱۵/ قرانی کا بیان) واللہ اعلم بالصواب

کتبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 



एक टिप्पणी भेजें

0 टिप्पणियाँ
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
एक टिप्पणी भेजें (0)
AD Banner
AD Banner AD Banner
To Top